کتاب: محدث شمارہ 1 - صفحہ 10
اغنیاء پر مساکین و غربا کی ذمے داری
اسلام نے ترکہ ’’وراثت‘‘ ’’صدقہ و زکوٰۃ‘‘ وغیرہ نظام کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا ہے درجاتِ معیشت میں گو تفاوت ہے مگر ایک ساتھ زندگی گزارنے کا حق سب کو یکساں ہے آج اگر کوئی رات کی روٹی اور جسم کے کپڑا کے لئے محتاج ہے اور کوئی ہزارہا یا لکھو کہا کا مالک ہے تو یہ محض اس لئے ہے کہ حق معیشت کی جو ذمہ داری کتاب و سنت نے ہم پر ڈالی ہے، اسے ہم نے نظر انداز کر دیا ہے۔ صدقات واجبہ عشر و زکوٰۃ کی ادائیگی آج مسلمانوں میں بند ہے۔
آٹھ مصارف: سورۂ توبہ میں عشر و زکوٰۃ کے مصرف آٹھ قسم کے آدمی ہیں۔ فقراء و مساکین، صدقات کے محصل اورجن کو اسلامی شعائر و عقائد کی طرف راغب کیا جائے۔ غلاموں کی آزادی، مقروض، مجاہد، مسافر۔ اگر صدقات واجبہ عشر و زکوٰۃ کے ذریعہ تمام مصارف کی خانہ پوری کر دی جائے تو دوسری ضروریات کی طرح مسلمان ضعفا و فقراء کی بھی معاشی حاجت پوری ہو جائے گی لیکن با ایں ہمہ اگر ضرورت پوری نہ ہو تو قانون اسلام کے مطابق دولت مند مسلمانوں سے مزید صدقات نافلہ کا وصول کیا جانا لازم ہو گا۔
امام ابن حزم کا نظریہ: ۱۔ علامہ ابن حزم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے۔ من کان معہ فضل ظھر فلیحُدْ بہ علی من لا ظھر لہ ومن کان لہ فضلٌ مِن زادٍ فلیحُدْ بہ علی من لا زاد لہ (محلی ابن حزم جلد سادس ص ۱۵۷)
یعنی جس شخص کے پاس سواری زائد ہو یا سامان خوردو نوش زائد ہو تو وہ نادار حاجت مند کو دے دے۔
۲۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے