کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 86
’’اللہ کی قسم آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عمر! اب تم کامل مومن ہو ۔‘‘[1]
حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی چیز کا فیصلہ کردیں تو اسے بلا چوں وچرا قبول کرلینا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo﴾(النساء: ۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں او رفرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘
یہ آیت کریمہ صراحت کے ساتھ اس بات پہ دلالت کررہی ہے کہ ہر چیز میں اپنا فیصل اور حکم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنائیں جیسا کہ اس کے شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے، اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زادتھے اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کر نے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہوگیا، معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صور ت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں تھا جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔[2]
آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف توکجا دل میں
[1] رواہ احمد: ۴/۳۳۶ ، صحیح۔
[2] بخاری: ۲۲۳۲۔