کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 81
لہٰذا آپ اگر دوستی کریں تو صرف اللہ کے لیے کریں اور اگر کسی سے دشمنی کریں تو محض اللہ کی خوش نودی کے لیے کریں ، اوپر کئی جگہ بیان ہوچکا ہے کہ دوستی کا معیار دین وایمان ، اللہ ورسول سے محبت، کتاب وسنت سے لگاؤ وتعلق ، صوم وصلوۃ کے پابند اور اسلام کے احکام وفرامین پر پابندی کرنے والے شخص سے ہو ، آپ کسی سے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو پہلے خوب چانچ پڑتال کرلیں تاکہ بعد میں افسوس نہ کرنا پڑے، خاص طور سے ایسا شخص جو صوم وصلوۃ کا پابند نہ ہو اس سے دوستی نہ کریں ۔ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ احباب سے میں نے اس لیے کنارہ کشی اختیار کر لی کہ وہ نماز کے پابند نہ تھے، اور میں جب بھی ان کو نماز کی طرف بلاتاتھا تو انہیں یہ بات ناگوار لگتی تھی اور ایک دن ان میں سے ایک نے کھل کر کہہ بھی دیا کہ دوبارہ نماز پڑھنے کے لیے نہ کہنا، اس کی یہ باتیں سن کر میں بہت کبیدہ خاطر ہوا، گرچہ ان سے جدائی اختیار کر لی لیکن ان لوگوں کے لیے دعا بھی کرتا رہا ، اللہ ہمیں اور انہیں ہدایت دے ۔
کبھی جاہلوں کو نماز کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ نماز کے لیے نہیں آتے ہیں اور کھل کر انکار بھی نہیں کرتے ہیں تو اتنی تکلیف نہیں ہوتی ہے، لیکن جب کسی عالم دین کو نماز کی پابندی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور خاص کر فجر کی نماز میں اٹھایا جاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ تمہیں ہمیں سختی سے جگا کر نماز پڑھانے سے کیا فائدہ ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ فجر کے وقت اٹھنے کی وجہ سے بعد میں نیند نہیں آتی ہے، تو اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے، ایسے خیال کے لوگوں سے دور ہی رہنا بہتر ہے ، کیونکہ جو شخص دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود محتاج دعوت وتبلیغ ہو تو وہ دوسروں کی کیا خاک رہنمائی کرے گا۔
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کی روشنی میں کیوں نہ ہم اس مبارک ہستی کو اپنا دوست بنائیں جو جنت میں ہمارا رفیق ہو، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے محبت ہو تو یہ ان کی بتائی سنتوں پہ عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور آپ کی سنتوں پہ عمل پیرا ہونے سے مراد ہے کتاب و سنت پہ عمل در آمد ہونااور اپنی پوری زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالنا۔