کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 33
اب انسان اس حدیث رسول کی روشنی میں دیکھے اور غور کرے کہ وہ کن سے دوستی کرتاہے، اگر اس کا معیار دوستی دین کی بنیاد پر ہے تو اس میں خیر ہی خیر ہے اور دنیا وآخرت کے لیے فائدے کا سودا ہے، لیکن اگر وہ برے لوگوں سے دوستی کرتا ہے تو اس میں نقصان ہی نقصان ہے اور اس کی دنیا وآخرت کی زندگی تباہ وبرباد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے ساتھی کی مثال یوں بیان کی ہے: ((اِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِیسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِیْسِ السَّوْئِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّا أَنْ یُحْذِیَکَ وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیحًا طَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیرِ إِمَّا أَنْ یُحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیحًا خَبِیثَۃً)) [1] ’’نیک ساتھی کی مثال کستوری فروش کی سی ہے اور برا ساتھی بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے، کستوری بیچنے والا یا تو از خود تجھے کچھ خوشبو دے دے گا یا تو اس سے خرید ہی لے گا (اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوئیں تو) یا کم از کم تجھے اس کی خوشبو (مہک) تو حاصل ہوتی ہی رہے گی، رہا بھٹی جھونکنے والا یا تو وہ تیرے کپڑے جلادے گا یا پھر تجھے ناگوار دھواں تو پھانکنا ہی پڑے گا۔‘‘ آج کل کے معاشرے پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی فطری اور حقیقی زندگی سے کوسوں دور جاچکے ہیں ، ہم ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جن سے شریعت اسلامیہ نے دوری اختیار کرنے کا حکم دیاہے اور ان لوگوں سے دشمنی وعداوت رکھتے ہیں جن سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ہمار ا عمل قرآن وحدیث اور اسلام کے بتلائے گئے اوامر ونواہی، احکامات وتعلیمات کے بالکل برعکس ہے، ہم ان چیزوں میں اپنی کامیابی وکامرانی کے خواب دیکھتے ہیں جن میں ہماری سراسر ناکامی ہے ، ہمارا تعلق اللہ ورسول سے منقطع ہوچکا ہے ، ہم
[1] بخاری: ۵۵۲۴۔ مسلم:۶۲۸۲۔