کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 32
پہلے اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے اور دونوں سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن وحدیث پہ عمل پیرا ہواجائے، اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وتابع داری ہی میں اللہ کی اطاعت وفرماں برداری پنہاں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo﴾ (آل عمران: ۳۱) ’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرماں برداری کرو ، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بعد اگر دوسروں سے محبت کی جائے تو اس کی بنیاد دینداریت اور تقوی و پرہیزگاری پہ ہو اور اس میدان میں کافی ہوشیاری اور غور وفکر سے کام لیا جائے، آدمی دنیاوی کاموں میں غور وفکر اور جانچ وپڑتال سے کام لیتا ہے، لیکن دوستی جس میں دین ودنیا دونوں کی بھلائی مضمر ہے، اسے بغیر پرکھے اختیار کر لیتاہے حالانکہ اگر دوست دیندار ہے تو دینداریت کی طرف بلائے گا اور اگر بدکار ہے تو بدکاری کی طرف بلائے گا اور دونوں طرح کے دوستوں کے اثر ورسوخ زندگی پہ پڑتے ہیں اور زود افزوں اثر انداز ہوتے ہیں ۔ آدمی اپنے دوست ا ورہم نشین کے سانچے میں بہت جلدڈھل جاتاہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْمَرْئُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلْ)) [1] ’’آدمی اپنے دوست کے دین (طور طریقہ) پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو سوچ سمجھ کر دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘‘
[1] أبوداؤد:۴۸۳۳۔ ترمذی: ۲۳۷۸۔صحیح الجامع:۳۵۴۵۔