کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 280
انہی مفاد پرستی، نفس پرستی، خواہش پرستی ، ہوس پرستی، خود غرضی اوروقتی ودنیاوی لذتوں اورخواہشات میں سے عشق بازی بھی ہے، جو سراسر جنسی خواہشات پہ مبنی ہوتی ہے، یہ دو اشخاص کے اندر اس وقت انگڑائیاں لیتی ہے جب دونوں بلوغت وجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکے ہوں ، دونوں کو ملنے جلنے کا موقع ملتا ہو، گھریلو پابندیوں اور بندشوں سے آزاد ہوں ، والدین لڑکی پہ اعتماد و بھروسا کرتے ہوں ، اس کی تعلیم وتربیت پہ فخر کرتے ہوں ، اس کے اوپر اپنی شفقت وہمدردی اور پیار ومحبت سے خوش ہوتے ہوں ، خوب ناز ونعمت اورآرام وراحت میں پلی بڑھی ہو، اور والدین اپنے مال ودولت کی ایک وافر مقدار اس پہ خرچ کرتے ہوں ، اب ان حالات میں والدین اپنی لاڈلی اورپیاری بیٹی پر حدسے زیادہ اعتماد وبھروسا کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ضبط وکنٹرول کی رسی اتنی ڈھیلی کردیتے ہیں کہ وہ دوسروں کے جال میں پھنس جاتی ہے اور دوسرے لڑکے کے ساتھ عشق ومعاشقہ اور آنکھ مچولی کرنے لگتی ہے اور بے حس وبے غیرت والدین کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب سر سے اوپر پانی پہنچ گیا ہوتاہے، اب ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو لڑکی کی شادی اس لڑکے سے کردیں جس کے ساتھ عشق ومحبت تھا، اس صورت میں وہ خود اپنے انجام سے بے خبر لڑکی کو مصیبت وتکلیف کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں ، کیونکہ عشق ومعاشقہ محض وقتی خواہشات اورجنسی سکون کی تکمیل کے لیے ہوتاہے اوریہ شادی سے پہلے بھی ہورہا تھا لیکن شادی کرنا مقصود نہیں تھا اور جب شادی ہوجاتی ہے تو اس وقت لڑکی کو حقیقت کا پتہ چل جاتاہے کہ یہ سب میرے جسم سے کھیلواڑ کا بہانہ تھا، اب یا تو طلاق ہوجاتی ہے یا لڑکی اپنی خاندان کی شرم کی وجہ سے نہ جیتی ہے اور نہ مرتی ہے بلکہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پہ مجبور ہوجاتی ہے ۔
یا تو والدین باخبر ہونے کے بعد لڑکی کو سمجھا بجھا کر اس عشق ومحبت سے جدائی کرائیں ، اگر ایسا ہوسکتا ہے تو خیر ہے، ورنہ اکثر جب والدین دو عشق کرنے والوں کے دلوں میں جدائی کراتے ہیں تو لڑکی والدین اور خاندان کی عزت وعصمت کو مٹی میں ملا دیتی ہے او رگھر سے