کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 276
تُخْزُوْنِo﴾ (الحجر:۶۸-۶۹)
’’انہوں نے کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔‘‘
۷۔ اسی طرح جہاں میزبان کو مہمان کی تعظیم وتکریم اور خاطر وتواضع کا حکم دیا گیا ہے، وہیں مہمان کوبھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بلاو جہ کسی کا مہمان بن کر اسے پریشانی اور مشقت میں نہ ڈالے، کیونکہ بسا اوقات میزبان مہمان کی وجہ سے قدرے مشکل محسوس کرتا ہے، اس کی وجہ سے اپنے بہت سے ضروری پروگرام اور دیگر کام ملتوی کردیتاہے جس کے نہ کرنے کی وجہ سے اسے خسارے اورنقصان کا سامنا کرنا پڑتاہے، اسی طرح اگر میزبان کی مالی حالت کمزور ہے تو اسے قرض لینے کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، جو اس کی پریشانی میں اضافہ کے باعث ہوتے ہیں ، اسی طرح آج کے اس مہنگائی کے دور میں اپنے اہل وعیال اور گھروالوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں آدمی تنگی محسوس کرتا ہے، ایسی صورت میں جب مہمان کا بوجھ پڑجائے تووہ برداشت سے باہر ہے ، اس لیے شریعت نے مہمان کی بھی ایک وقعت مقرر کردی ہے تاکہ دونوں میں کسی کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ان حدیثوں کی روشنی میں مہمان خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ ہمیں کن حالات میں اور کتنے دنوں تک مہمان بننا چاہیے، اسی طرح مہمان خواہ کتنے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ، انہیں ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے قریبی مہمان بھی باعث تکلیف بن جاتے ہیں اگرچہ انہیں اس کا احساس نہیں ہوتاہے، اسی طرح نئے رشتہ دار جو اپنی قوی رشتہ کی وجہ سے مہمان بنتے ہیں اور انہیں یہ فکر نہیں ہوتی ہے کہ ہم کسی کے گھر مہمان بن کر آ ئے ہیں ، مجھے جلدی سے یہاں سے کوچ کرنا چاہیے، مثلا ہندوستان میں اکثر جگہوں پہ یہ رواج ہے کہ شادی کے بعد بیوی جب سسرال آتی ہے اور کچھ دنوں کے بعد جب وہ اپنے میکے جاتی ہے تو اس کے ساتھ