کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 275
ہی بے رخی سے اس کے آنے کا مقصد پوچھنے لگتے ہیں ، جس سے مہمان کی ناقدری اور بے عزتی ہوتی ہے اور وہ دل ہی دل میں کف افسوس ملتا ہے کہ بے کار میں اس کے یہاں بطور مہمان آیا اور اگر ابھی وقت ہے کہ وہ واپس لوٹ سکتا ہے تو حتی الوسع یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ واپس لوٹ جائے، ایسا رویہ اختیار کرنے سے خواہ مخواہ مہمان ناراض ہوتاہے اور میزبان سے عداوت ودشمنی مول لیتاہے اور ان باتوں کو مستقبل کے لیے اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھتاہے اور جب وہ موقع پاتا ہے اور اپنے یہاں اسے بطور مہمان پاتا ہے تو بدلہ لے لیتا ہے، کیونکہ یہ سچ ہے ۔ ((کما تدین تدان۔)) اور ((من لم یکرم لایکرم)) ’’جو جیسا رویہ اختیار کرتاہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی رویہ اپنایا جاتاہے اور جو دوسروں کی عزت واکرام نہیں کرتا اس کی بھی عزت وقدر نہیں ہوتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں ایسے میزبان جو مہمانوں کے ساتھ بد اخلاقی اور ترش روی کے ساتھ پیش آتے ہیں ، معاشرے سے ان کی قدر و منزلت ختم ہوجاتی ہے اور ہر جگہ ان کی برائی اور عیب جوئی کی جاتی ہے، میزبان حتی الوسع مہمان کی تکریم کرے، اگر کوئی شخص ان کے ساتھ اہانت آمیز برتاؤ کرے تو مہمان کی جانب سے مدافعت کرے کیونکہ اس سے خود میزبان کی توہین اوربے عزتی ہوتی ہے، اورالحمد للہ باضمیر اوراللہ ورسول کے فرمان پہ چلنے والے دیندار ومتقی لوگ ان چیزوں کو کبھی برداشت نہیں کرتے کہ ان کے سامنے مہمان کی توہین اوربے عزتی ہو بلکہ یہ بڑے فخر سے بیان کیاجاتاہے کہ یہ ہمارے مہمان ہیں ، لہٰذا ان کی طرف انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ، حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں وارد ہے کہ جب ان کی قوم نے ان کے شریف مہمانوں (فرشتوں ) کے ساتھ توہین اور بے ادبی کرنا چاہی تو انہوں نے ان کو اس سے روکا اور فرمایا: ﴿قَالَ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ o وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا