کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 271
بچھڑے (کا گوشت) لائے۔ اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے، انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے، اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔‘‘ مہمان نوازی کے آداب: ۱۔ جب مہمان اور میزبان ملیں توشروعات سلام سے کرنی چاہیے، خندہ پیشانی اور تروتازگی سے ملنا چاہیے، مہمان چونکہ اپنے رشتہ دار سے ملنے آیا ہے اس لیے وہ خوشی اور مسرت کے ساتھ ملے اور میزبان چونکہ اس کے پاس مہمان بن کر آیاہے اس لیے اس کے ساتھ خوشی کا اظہار کرے اور ایسی بات کرے جس سے مہمان کو احساس ہوکہ وہ ہماری آمد پہ خوش ہے اور بہت دنوں سے میرا منتظر تھا، کیونکہ جب کوئی بھی آدمی کسی کے پاس جاتا ہے تو اس کے چہرے اور کلام سے یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ وہ ہمارے آنے سے خوش ہے یا ناخوش ہے ، اس لیے حتی المقدور میزبان اپنے اخلاق وکردار، طور وطریقہ، کلام وگفتگو ، انداز اور لب ولہجہ سے اپنی ناخوشی او رناراضگی کا ثبوت نہ دے، بلکہ اگر بعض وجوہات کی بنا پر واقعتا اس سے کبیدہ خاطر یا ناخوش ہے، پھر بھی اس کا اظہار نہ کرے تاکہ مہمان کوکسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔ ۲۔ جب مہمان تشریف لائے تو کھڑے کھڑے اس سے زیادہ دیر تک باتیں نہ کرے، بلکہ اسے اچھی جگہ پر بٹھائے اور کھانے کا انتظام کرے، مہمان کے آتے ہیں پانی یا کوئی دوسرا مشروب پیش کرے ، اس سے مہمان اچھا تاثر لیتا ہے ، خاص طور سے گھر میں بچوں کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ گھر پہ کوئی بھی آدمی آئے تو اس کے استقبال کے بعد فوراً گلاس میں پانی پیش کرو ، ہوسکتا ہے کہ اسے سخت پیاس لگی ہوئی ہو اور آتے ہی کہنا نہیں چاہتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلد بازی میں ہو، رکنا نہیں چاہتاہو، لیکن جب بچوں کو