کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 270
لیے کچھ کھانا ہے۔ صحابی نے کہا کھانا تیار کرکے چراغ جلادو اور بچے جب رات کا کھانا طلب کریں توانہیں سلادو چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا اور اپنے بچوں کو سلادیا، جب مہمان کے لیے دسترخوان لگ گیا تو وہ چراغ درست کرنے کے بہانے کھڑی ہوئی اور اس وقفہ میں اس نے چراغ بجھادیا، میاں بیوی نے مہمان کو یوں محسوس کرایا کہ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ کھارہے ہیں ، حالانکہ دونوں نے بھوک ہی کی حالت میں رات گزاری صبح ہوئی تووہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں کی مہمان نوازی سے اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا اور یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (الحشر: ۹) ’’وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، گو خود کو کتنی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔‘‘ [1] حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بہت بڑے مہمان نواز تھے، انہوں نے ایک بار فرشتوں کو انسان سمجھ کر ضیافت کی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ o اِِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنکَرُوْنَo فَرَاغَ اِِلٰی اَہْلِہٖ فَجَائَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ o فَقَرَّبَہٗٓ اِِلَیْہِمْ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ oفَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لَا تَخَفْ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ o﴾ (الذاریات: ۲۴-۲۸) ’’کیا تجھے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟ وہ جب ان کے ہاں آئے توسلام کیا، ابراہیم نے جواب، سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں ، پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھروالوں کی طرف گئے اور ایک فربہ
[1] بخاری: ۳۷۹۸ مسلم: ۲۰۵۴۔