کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 267
بنتے ہیں ۔ انسان کہیں نہ کہیں دوسری جگہ سیر وساحت اور تفریح کے لیے جاتا ہے، کوئی دور دراز کے سفر اور سیر وتفریح کے لیے نکلتا ہے ، کوئی دوسرے ممالک کا سفرکرتا ہے ، کوئی اندورن ملک مخصوص جگہوں پہ سیر وتفریح کے لیے جاتا ہے، کوئی اپنے رشتہ داروں ، قرابت داروں اور دوستوں کے یہاں مہمان بن کر جاتاہے، سب کا مقصد ایک ہی ہوتاہے کہ ذہن ودماغ میں تبدیلی ہو، الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوں ، ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہو اور پھر تازہ دم ہوکر اپنے اپنے کاروباراور صنعت وحرفت میں محو ہوجائیں ۔ انہی چیزوں کے قبیل سے ہے کہ ایک آدمی دوسرے رشتہ داروں کے پاس بطور مہمان بن کر جاتا ہے تاکہ اسے رشتہ داروں سے مل کر خوشی ومسرت حاصل ہو ذہنی الجھنیں دور ہوں آپسی معاملات کے بارے میں تبادلہ خیال ہو، ایک دوسرے کے حالات وکوائف سے آگاہی ہو ایک دوسرے کے دکھ درد آفت ومصیبت میں کام آئیں آپس میں الفت ومحبت اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ہو رشتہ وناطہ میں تقویت پیدا ہو، ایک دوسرے کے ساتھ مدد وتعاون کے عہد ومیثاق کریں ۔ انہی مقاصد اور اہمیت وفضیلت کے تحت اسلام نے مہمان نوازی اور میزبانی کو انسانی اخلاق وکردار، اس کے ایمان وایقان کا ایک جزء لاینفک قراردیا ہے، تاکہ انسان ان ہدایات کی پاسداری کر کے سماج ومعاشرہ میں ایک اچھا انسان بنے اور مہمان نوازی کو بحسن وخوبی انجام دے کراپنے عظیم اخلاق اور بہتر عادات واطوار کا مظاہرہ کرے اور یہ کسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی دن کسی کا مہمان بنتا ہے، لہٰذا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم اپنے آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہیں ، اس کی اچھے طریقے سے میزبانی اور ضیافت کریں ، تاکہ جب ہم بھی اس کے پاس جائیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے ، خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے اور جہاں تک اس سے ممکن