کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 264
فقروفاقہ اور مفلسی کا واسطہ دے کر انہیں سمجھائیں اور صبر کی تلقین کریں لیکن بچوں کی ناعقلی کے سامنے صبر چہ معنی دارد؟ وہ تو فوراً رونا، دھونا شروع کردیں گے ، دوسری صورت یہ ہوگی کہ والدین اپنے بچوں کی خاطر کہیں سے قرض لیں یا پھر غلط طریقوں سے مال حاصل کرنے کی کوشش کریں اوریہ دونوں چیزیں فطرت سلیم گوارہ نہیں کرتی، اب جو لوگ شاکر وصابر نہیں ہیں انہی چیزوں کی وجہ سے حرام کاری، فریب کاری اور دھوکا دہی جیسے مشغلے اختیار کرتے ہیں اور اسباب زندگی کے سامان بہم پہنچاتے ہیں ۔آپ نے دیکھا کہ ہنڈیا سے اٹھنے والی خوشبو کہاں تک جا پہنچی اور عدم احتیاط سے کتنے بڑے اور سنگین مسائل سامنے کھڑے نظرآتے ہیں ، اس کا حل یہ ہے کہ گھر کے اندر ایسی احتیاط کی جائے کہ پکوان کی خوشبو دوسروں کے لیے باعث فتنہ نہ بنے یا اپنی فراخ دلی اور جذبہ ایثار کا ثبوت دے کر تھوڑا سا سالن اپنے غریب پڑوسی کے یہاں بھی بھجوادیں ، یہ عمل جہاں پڑوسی کے غریب بچوں کی اشک شوئی کرے گا وہیں امیر سے حسد کو محبت اور دوستی میں بدل دے گا ، جس کا اچھا اثر آپ کے اہل خانہ تک پہنچے گا اورایسے لوگوں کی قرآن میں اس طرح مدح سرائی بھی کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (الحشر: ۹) ’’وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، گو خود کو کتنی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔‘‘ محسن انسانیت ، رہبر کامل ، سرکار دوجہاں ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرتے ہوئے کہا: ((یَا اَبَا ذَرٍّ اِذَا طَبَخْتَ مِرْقَۃً فَاَکْثِرْ مَآئَہَا وَتَعَاہَدْ جِیرَانَکَ۔))[1] ’’اے ابوذر! جب تم شوربہ پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال کر اپنے پڑوسیوں کا
[1] مسلم:۲۶۲۵۔