کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 262
واعانت کرتا تھا لیکن ان کی رحلت کے بعد ہمیں فراموش کرگیا ، اس وقت پڑوسی کی ذمہ داری اور دوبالا ہوجاتی ہے کیونکہ جو گھر والوں کے اخراجات پورے کرتا تھا، ان کی تمام قسم کی حاجت وضرورت برلاتا تھا ، ان کا نگراں ومحافظ تھا ، اس کی وفات کے بعد وہ ہر چیز کے محتاج ہوچکے ہیں ، ایسے وقت میں ان کی کفالت ودیکھ ریکھ کرنا، پڑوسی کے اوپر واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَ نَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہٰکَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا)) [1] ’’میں اور یتیم کی پرورش کا ذمہ دار دونوں جنت میں اس طرح ساتھ رہیں گے جس طرح یہ دونوں ہیں یعنی شہادت والی اور درمیان کی انگلی اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ رکھا۔‘‘ ۸۔بلند عمارت کی تعمیر : مال دار وخوش حال پڑوسی کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو کسی بھی طرح کی اذیت وتکلیف نہ دے، اس کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رویہ اختیار کرے کہ وہ کبھی ناراض اور کبیدہ خاطر نہ ہو، خصوصاً کوئی ایسا کام نہ کرے جسے وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے اور دل ہی دل میں بغض وحسد کو جگہ دے، مثلا گھر بنوارہا ہے تو پہلے اس سے رائے ومشورہ کرلے اگرچہ وہ آپ کا رشتہ دار نہیں ہے، اس کے پوچھے بغیر بھی آپ اپنا گھر بنواسکتے ہیں اور وہ آپ پر کوئی بندش نہیں لگا سکتا ، لیکن چونکہ آپ ایک سچے مسلمان ہیں ، اللہ ورسول کے بتائے ہوئے طریقہ پرچلناآپ کا فریضہ ہے اورپڑوسی کے لیے شریعت کے متعین کردہ بہت سارے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے گھر کے پاس اونچی اور بلند عمارت اٹھاکر اسے تکلیف نہ دی جائے اور ان شاء اللہ جب آپ اس سے مشورہ کرکے گھر بنوائیں گے تو وہ انکار بھی نہیں
[1] بخاری: ۴۹۹۸۔