کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 261
جنازے میں شرکت کی جائے، یہ گویا پڑوسی سے الفت ومحبت کا آخری اورقطعی ثبوت ہے کہ آپ اس سے دوستی اور ہمدردی کا حق مرنے کے بعد بھی نبھارہے ہیں اورجنازے میں شرکت کرنا کار خیر اور باعث اجر وثواب بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَنْ شَہِدَ الْجَنَازَۃَ حَتَّی یُصَلِّیَ عَلَیْہَا، فَلَہُ قِیرَاطٌ ، وَمَنْ شَہِدَہَا حَتّٰی تُدْفَنَ ، فَلَہُ قِیرَاطَانِ قِیلَ: وَمَا الْقِیرَاطَانِ؟ قَالَ مِثْلُ الْجَبَلَیْنِ الْعَظِیمَیْنِ۔)) [1] ’’جو شخص جنازے میں حاضر ہوا یہاں تک کہ جنازے کی نماز پڑھی تواس کے لیے ایک قیراط ہے اور جو دفن کرنے تک ساتھ رہتاہے تو اس کے لیے دو قیراط ہیں ، پوچھا گیا: دو قیراط کیاہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بڑے پہاڑوں کے برابر اجر۔‘‘ پڑوسی دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہے کہ اس کے جنازے میں شرکت کی جائے، کیونکہ صدیوں تک ایک ساتھ رہنے سے ایک قسم کی انسیت ولگاؤ پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے پڑوسی کے انتقال پہ بہت افسوس اور ملال ہوتاہے، اس لیے اس کے ساتھ ہمدردی اورمحبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے جنازے کے ساتھ تشریف لے جائیں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر قبر میں اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کریں ، پڑوسی اپنے فوت شدہ پڑوسی کے بارے میں بخوبی واقف ہوتاہے کہ وہ نیک تھا یا گنہگار ، نیک تھا تو اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرے اور اگر اس کی جانکاری کی حد تک بد تھا تو اس کی مغفرت وبخشش کے لیے دعا کرے اور اس کے بچوں کو اس کے لیے دعا اورصدقہ وخیرات کرنے کی تلقین کرے ، پڑوسی کی وفات کے بعد اس کے بچوں کے ساتھ شفقت وہمدردی اور محبت ونرمی کے ساتھ پیش آئے اور ان کے اوپر اپنا دست تعاون رکھے رہے تاکہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ والد کی موجودگی میں تومدد
[1] بخاری: ۱۲۶۱ ، مسلم: ۹۴۵۔