کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 258
یہ تعزیت کا طریقہ جو اسلام نے رائج کیا ہے اس کے اندر بہت ساری حکمتیں اورفوائد پنہاں ہیں ، اسی لیے تعزیت کرنے والے کے لیے اجروثواب کا وعدہ بھی ہے تاکہ انسان معاشرہ میں واقع ان چیزوں سے بھی غفلت وسستی نہ برتے اور تعزیت کرنے میں بخل سے کام نہ لے، غمی ومصیبت ہر انسان کے ساتھ آتے رہتے ہیں ، اس لیے انسان کا فریضہ بنتا ہے کہ مصیبت زدہ اور غم سے نڈھال اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس کے درد والم اورکرب واضطراب کو بانٹے، کیونکہ مصیبت زدہ انسان جب تنہا رہتا ہے تو اس کے غموں میں اور اضافہ ہوتا رہتاہے لیکن جب کوئی ساتھی آکر اس کے غم میں شریک ہوتا ہے، اسے تسلی اور دلاسہ دیتاہے ، اس کے قریب بیٹھتا ہے، اس کے آنسو پوچھتاہے، اللہ کی قضا وقدر کی یاد دہانی کراتا ہے کہ تمام مصیبت وتکلیف اللہ کی طرف سے ہے ، اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے ، لہٰذا اگر آپ اللہ کے فیصلے پہ راضی ہوکر صبر کرتے ہیں تو اس پہ آپ کو اجر وثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَo ﴾ (البقرہ:۱۵۵ تا ۱۵۷)
’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیاکرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں او رہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘
اسی طرح آپ کسی کی تعزیت کریں توخوب دلجمعی اورعمیق قلب سے کریں ، اسے نیک کام سمجھ کر کریں اور اس پہ اجروثواب کی امید رکھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعزیت کرنے والے کے بارے میں فرمایا :