کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 254
پہلو تہی اور جدائی اختیار نہیں کرسکتا ، ان ہی میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کی خبرگیری اورمزاج پرسی کرتے رہیں ، جب بیمار ہوتو اس کی عیادت کریں اور یہ ذمہ داری سب سے پہلے پڑوسی پہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عیادت کرے اور مرض وبیماری میں اس سے مالی تعاون کرے، تاکہ بروقت وہ اپنا صحیح علاج ومعالجہ کرسکے ، اس کے پاس جاکر اسے تسلی دے ، میٹھی میٹھی باتیں کرے، اس کے رنج وغم کو دور کرے، اس کے ذہن ودماغ سے فکر ورنجش کا ازالہ کرے اور اس سے ہر طرح کی مدد وتعاون کا وعدہ کرے، اس کے اہل خانہ کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری لے، اس کے کاموں کے کرانے کی ذمہ داری لے، اس طرح سے مریض کی آدھی بیماری دور ہوجاتی ہے اور اسے اندرونی طور پہ راحت وخوشی اورافاقہ محسوس ہوتاہے۔
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پڑوسی باہمی اختلافات اوررنجشوں کی وجہ سے اپنے پڑوسی سے قطع کلام کرلیتا ہے ، اس کے پاس آنا جانا بند کردیتاہے ، آفت ومصیبت اور بیماری میں اس کی عیادت نہیں کرتا، جس سے بیمار پڑوسی کا سر مارے غم وتفکر کے اور بوجھل ہوجاتاہے اور اسے اپنے قرب وجوار میں کوئی ہمدرد وغم گسار نظر نہیں آتا ، حلانکہ ایسے موقعوں پر پڑوسی کو چاہیے کہ تمام قسم کی عداوت ودشمنی، ذہنی خلش ورنجش کو فراموش کرکے پڑوسی کی عیادت ودلجوئی کرے ، ایسا کرنا اس کے لیے فوری خوشی اور اجر وثواب کا باعث بھی ہے ، حدیثوں کے اندر مریض کی عیادت کی بہت فضیلت آئی ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ عَادَ مَرِیضًا لَمْ یَزَلْ فِیْ خُرْفَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ۔))[1]
’’مریض کی عیادت کرنے والا جب تک واپس نہ لوٹے جنت کے باغ میں رہتا ہے۔‘‘
دوسری حدیث میں عیادت کی فضیلت کویوں بیان کیا گیا ہے:
[1] مسلم: ۲۵۶۸۔