کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 252
ارشاد ہے: ﴿وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ﴾ (الذاریات: ۱۹) ’’اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔‘‘ شریعت اسلامیہ نے زکوٰۃ اور صدقہ وخیرات کا نظام اس لیے قائم کیا ہے کہ مال داروں سے وصول کرکے محتاجوں اور فقیروں کی ضرورتیں پوری کی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ۔))[1] لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنہیں اپنے فضل وکرم سے مال ودولت اور زمین وجائداد کا مالک بنایا ہے، وہ مال میں کمی کے خوف سے زکوۃ نہیں نکالتے اور صدقہ وخیرات نہیں کرتے ہیں ، حالانکہ یہ ان کی خام خیالی اور کج فہمی ہے جہاں اس سے محتاجوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہاں ان کے مالوں کی تطہیر اورپاکیزگی بھی ہوتی ہے، اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں اور مزید برکت و بڑھوتری کے حق دا ربھی ، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے مالوں کی زکوۃ لے کر انہیں پاک کرو ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo﴾ (التوبۃ: ۱۰۳) ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتاہے۔‘‘ نیز جو لوگ بخیلی اور کنجوسی ، مال ودولت سے اتھاہ محبت اور نقص وکمی کے ڈر سے زکوٰۃ نہیں نکالتے ہیں اور ذخیر ہ اندوزی کرتے ہیں ، ان کے لیے سخت وعید اورعذاب شدید ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
[1] بخاری: ۱۳۳۱ مسلم: ۱۹۔