کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 250
پاس آتا ہے کہ آپ اس کو قرض دیں جس کے ذریعے وہ اپنی پریشانی کو دور کر سکے، اگر آپ مال دار ہیں تو فوراً اس کو قرض دیں اور اگر اس کے قابل نہیں ہیں تو بالواسطہ اس کی مدد کریں ۔
اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب پڑوسی دردر کی ٹھوکریں کھاتاہے اور مال دار پڑوسی اس کے سامنے قہقہے لگاکر، اس کے درد وکرب پہ نمک چھڑکتاہے، وہ دور دراز کے لوگوں سے قرض لے کر اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اوراس کا پڑوسی اپنے مال ودولت سے ایک تنکا بھی اسے نہیں دیتا ، بسا اوقات ایسے محتاج وفقیر لوگ سود پہ روپے لے کر اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور سود کا سود بھرتے بھرتے زندگی کی ایک لمبی عمر کٹ جاتی ہے لیکن مال دار پڑوسیوں کے سر پہ جوں تک بھی نہیں رینگتی، سچ ہے کہ انسان کو کسی چیز کی اہمیت اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب بذات خود وہ اس میں ملوث ہو، آنکھ کی قدروقیمت اندھے کو معلوم ہے، پیر کی افادیت کا اندازہ لنگڑے کو ہے، کان کی اہمیت بہرا جانتاہے، قوت گویائی اورنطق کی قدر ومنزلت گونگے ہی جانتے ہیں ، مال ودولت کی قدر غریب وفقیر ہی جانتے ہیں ، ماں باپ کی کمی وہی لوگ محسوس کرتے ہیں جو ان کے سایہ عاطفت سے محروم ہیں ۔
پس قبل اس کے کہ مال دار اپنی مال ودولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ، انہیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور حتی الوسع حاجت مندوں اورضرورت مندوں کی حاجت برآری کرنی چاہیے اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے انہیں قرض دیناچاہیے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قرض حسنہ سے تعبیر کیا ہے اور اس کا اجر وثواب بڑھا کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًاکَثِیْرَۃً وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْسُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَo﴾ (البقرہ: ۲۴۵)
’’ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے، پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘