کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 245
علیہ بالبنیان فتحجب عنہ الریح إلا بإذنہ، ولا تؤذہ بقتار ریح قدرک إلا أن تغرف لہ منہا، وإن اشتریت فاکہۃ فأہد لہ، فإن لم تفعل فأدخلہا سرا ولا یخرج بہا ولدک لیغیظ بہا ولدہ۔)) [1] ۱۔پڑوسی کی مدد: قریب وپاس میں رہنے والے پڑوسی مال دار ہو ں یا تنگ دست ، مسلم ہو ں یا غیر مسلم دونوں صورتوں میں ان کی مالی، جسمانی اور اخلاقی مدد کرنا ضرور ی ہے ، ہر طرح سے انہیں آرام وراحت پہنچانے کی جد وجہد کرنی ہے، مالی اعتبار سے اگر کمزور ہیں ، کھانے پینے میں انہیں دقت وپریشانی ہوتی ہے، بچوں کی تربیت وپرورش میں کمی ہوتی ہے، گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوپاتے ہیں ، ہمیشہ قرض تلے دبے رہتے ہے تو ایسی صورت میں مال دار پڑوسی کا حق بنتا ہے کہ ان کی مالی مدد کرے، اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مال دار پڑوسی اپنے مال ودولت، عزت وشہرت ، قدر ومنزلت ، اپنے اثر ورسوخ اور کامیابی وکامرانی کی وجہ سے اپنے پڑوسی کے سامنے فخر ومباہات اورغرور وتکبر کا مظاہرہ کرتاہے حالانکہ یہ چیزیں وقتی فرحت وشادمانی کا سامان ہیں ، دنیاوی زیب وزینت کی مظہر ہیں ، ایک دن یہ سب کے سب فنا ہوجانے والی ہیں ، ایسے ا وقات میں اسے ان غیر نفع بخش چیزوں پہ اترانے کی بجائے، اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ کہیں یہ چیزیں اس سے چھین نہ لی جائیں ، کیونکہ اکثر ان چیزوں کی ناقدری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں دوسرے کے سپرد کردیتاہے، جو ان کی عزت کرے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے میں خرچ کرے ، زمانہ شاہد ہے ، دنیا گواہ ہے کہ کتنے بادشاہ ومال دار اپنے ظلم تشدد ، کبر ونخوت ، دولت کی ناقدری اوراہل حقوق کے حق نہ ادا کرنے کی وجہ سے ساری چیزیں گنوا بیٹھے اور کاسہ گدائی لے کر دردر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوگئے، لیکن کتنے ایسے فقیر
[1] ضعیف الترغیب والترہیب:۱۵۲۳۔