کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 23
دوچار ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی تبلیغ واشاعت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی بالادستی وسربلندی کے لیے سب کو برداشت کیا ۔ ایک بار کفار ومشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق چچا کے پاس اس غرض سے آئے کہ آپ اپنے چہیتے اور پیارے بھتیجے کو کہہ دیں کہ وہ اس دین کے پھیلانے سے باز آجائے جو آدمی کو اس کی بیوی، بھائی، بہن ماں ، باپ سب سے جدائی کرادیتا ہے، اس وقت ابو طالب نے آپ کو اس دین کی تبلیغ سے باز رہنے کو کہا تھا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رنجیدہ اور کبیدہ خاطرہوئے اور کہا: ((یَا عَمِّ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِیْ یَمِیْنِیْ وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِیْ عَلٰی أَنْ أَتْرُکَ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی یَظْہَرَہُ اللّٰہُ أَوْ أَہْلَکَ فِیْہِ مَا تَرَکْتُہُ۔))[1] ’’اے میرے چچا جان! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں اور کہیں کہ اس دین کو چھوڑ دو تو میں اسے اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کردے یا میں اس میں ہلاک ہو جاؤں ۔‘‘ غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی سربلندی کے خاطر اپنی جان ومال سب کو قربان کردیا اور اللہ کی محبت کے سامنے دنیا والوں کی ذلت آمیز باتوں اور دھمکیوں کی قطعی پروا نہ کی ۔ہجرت کے بعد جتنے عزوات ہوئے ، جتنی اندرونی اور بیرونی یلغاریں اور یورشیں ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور اس وقت تک جہاد اور اسلام کی نشرواشاعت اور تبلیغ کے لیے تگ ودو کرتے رہے یہاں تک کے اللہ نے اس دین کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ
[1] سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: ۹۰۹۔