کتاب: محبت کرنا سیکھئے - صفحہ 17
پوری فضا ہمارے لیے کھلی ہوئی ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں ، سہانی ہوائیں اور بھینی بھینی خوشبوئیں آتی ہیں ، جو ہمارے مسام جان کو معطر کرجاتی ہیں ، فضا میں چھوڑے گئے سیٹلائٹ اور ذرائع ابلاغ کے سامان دنیا بھرکو خبر پہنچا رہے ہیں ، فضا میں ہوائی جہاز اور راکٹ سے دور دراز ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور اس میں ہمیں کوئی رکاوٹ ودشواری نہیں ہوتی ، اگر اللہ چاہے تو ہمیں دوبارہ زمین دیکھنا نصیب نہ ہو ، ہم خلا ہی میں تباہ وبرباد ہوکر ریزہ ریزہ ہو جائیں ، لیکن یہ اللہ کی کرم فرمائی اور بندوں سے اس کی محبت ونرمی کا نتیجہ ہے کہ ہم آسمان میں اڑ رہے ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ پانی سے لبالب بھرا ہوا اورموجیں مارتاہوا سمندر جس کی اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا جس میں پانی جہاز اور کشتیاں بھاری بوجھ لے کر چلتی ہیں ، بادبان محض اپنے خالق حقیقی کے اوپر امید وبھروسا کرکے سفر شروع کرتاہے، دنیا کی تمام چیزوں سے اس کی امیدیں منقطع ہوجاتی ہیں ، پھر جب سمندر پار کر جاتاہے تو دنیاوی اسباب سے امیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور اپنے مالک حقیقی کو فراموش کرجاتاہے، اللہ نے اس کا نقشہ قرآن میں یوں کھینچاہے: ﴿فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَo﴾ (العنکبوت:۶۵) ’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں ۔ اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچالاتاہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ بندوں کی بے وفائی اور شرک کے باوجود انہیں سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا دیتا ہے، یہ بندوں سے محبت نہیں تو اور کیا ہے! انسان اس دنیا میں ظلم وجور ، وحشت وبربریت ، سرکشی و طغیانی ، سفاکیت و حیوانیت، شیطانیت و دجالیت، قارونیت وفرعونیت، مکر وفریب، دھوکا وغبن ، جنگ وجدال، لڑائی جھگڑا ،