کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 417
میں متنبی قادیانی کی امت کی طرح کسی قسم کی تاویل وتحریف کے چکر میں پڑنے کی بجائے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر کسی فرد یا چندافراد نے ایساکیا توغلط کیا،ہم نے انہیں نہ معصوم سمجھتے ہیں اور نہ صاحب شریعت کو ان کی ہر بات ہمارے لیے حجت وسند ہو۔ قوم میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن سے غلطیوں اور مغزشوں کاصدور ہوتا ہے ۔ ان سے مھموعی طور پر قوم کے دامن پر دھبہ نہیں لگ سکتا اور نہ ہی ان کی بناء پر کسی گروہ کو مطعون کیاجاسکتا ہے ۔ کیا مرزائی غلام احمدقادیانی کے بارہ میں اس بات کے کہنے کی جرات رکھتے ہیں جب کہ وہ مرزائیت کابانی اورموسس ہی نہیں بلکہ اس کا نبی رسول بھی ہے ۔ نہ جانے اللہ دتہ مرزائی کو ایک اہل حدیث رسالہ کے مدیر کی اتنی موٹی بات کیوں سمجھ میں نہیں آسکی یا مرزائیت نے اس کی رہی سہی عقل کو جوپہلے بھی اس کے پاس کم تھی خاتمہ کردیا ہے ۔ اور پھر مولانا محمد حسین بٹالوی کے متعلق ماسوا اس کے کہ انہوں نے انگریز گورنر کے پنجاب پونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کو کل گورنمنٹ کے اجرا چیفس کالج کے قائم کرن ، پبلک لائبریری کے بنانے ااور طلبہ کووظائف دینے پر اس کا شکریہ ادا _____________________ خلاف صف آرا تھیں اور جس کے نتیجے میں دوسری طرف سے بھی ناخوشگوار اندازمیں دیوبندی اکابر کومعرض بحث میں لانا پڑا۔ا گرچہ سب سے پہلے دوستوں نے ہم سے اس موضوع پر قلم اٹھانے کوکہا اور بعض نے بڑی حد تک مجبور بھی کیا ۔ لیکن ہم باوجود اس مضمون کی تلخی اور اس کے نتیجہ میں پیداہونے والی کوفت اور اذیت کے اور مواد کی فراہمی کے اسے ٹال گئے کہ یہ وقت اس قسم کی بحثوں کے لیے قطعاً موزوں نہیں ۔ اگرچہ ہم کسی بھی وقت کو اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے درمیان خصوصاً منافرت کے لیے مناسب خیال نہیں کرتے ۔محمد ایوب سے کوئی گلہ نہیں ۔ ان کی " قادریت " ان سے جوبھی کہلوائے ، لکھوائے اور کروائے ،لیکن حضرت مفتی صاحب کی نگرانی اور مولانا عثمانی کی مسئولیت میں اس قسم کی دل آزاری کاکوئی جواب نہیں ۔