کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 414
﴿ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴾[1] درکفے جام شریعت درکفت سندان عشق ہرہوسناکے نداندجام وسنداں باختن اہل حدیث، ہند کی انگریز حکومت کی نگاہوں میں کس طرح کھٹکتے تھے۔ا س کا اندازہ صرف اس ایک چھوٹی سی عبارت سے کیاجاسکتا ہے جسے مولانا عبدالرحیم صادق پوری ، مولانا احمد اللہ کے حالات میں رقم کرتے ہیں ۔و ہ پٹنہ کے انگریز کمشنر مسٹر ٹیلر اور اس کی اسلام اور جہاد دشمنی کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” اس وقت ٹیلر صاحب اور ان کے مشیر عقرب کمر بستہ کھڑے ہوگئے اور چوکڑی بھرنے لگے اور چونکہ حکام وضلع وگورنمنٹ اس وقت خاندان صادق پورسے خصوصاً اور جملہ فرقہ اہل حدیث سے عموماً بدظن وغضبناک ہورہی تھی ۔ا س کا موقع پاکر جھٹ ان کمینوں نے حکام ضلع وگورنمنٹ کے کان میں پھونکا کہ یہ ممکن نہیں کہ مولوی یحییٰ علی وعبدالرحیم وجملہ فرقہ اہل حدیث اس بغاوت کےجرم میں ملوث ہوں اور مولوی احمد اللہ اس سے بری ہوں ، [2] داروسن کی گود میں پالے ہوئے ہیں ہم سانچے میں مشکلات کے ڈھالے ہوئے ہیں ہم وہ دولت جنوں کے زمانے سے اٹھ گئی ، اس دولت جنوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم