کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 412
حدیث کےخلاف انبالہ، پٹنہ ،مالوہ ،راج محل اور پھر پٹنہ میں بغاوت کے جرم میں مقدمے چلائے جارہے تھے اور انہیں پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی تھیں اور جب پھانسی کی سزا سن کر ان کے چہروں پر لقاء رب کی نوید سے خوشی کی لہر دوڑ گئی توپھانسی کو عبور دریائے شور اور دوام حبس کی سزا میں تبدیل کیاجارہاتھا۔ا ن ہی اسیران بلامیں سے ایک اور سیدنا نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد مولوی محمد جعفر تھا نسیری بیان کرتے ہیں : ” 11 ستمبر 1964ء کوڈپٹی کمشنر صاحب پھانسی گھروں میں تشریف لائے اورچیف کورٹ کاحکم پڑھ کر سنایا کہ تم لوگ پھانسی پڑنے کو بہت دوست رکھتے ہو اوراسے شہادت سمجھتے ہو۔ اس واسطے سرکا ر تمہاری دفل چاہتی سزا تم کونہیں دیوے گی ۔ تمہاری پھانسی سزائے دوام الحبس عبور دریائے شور سے بدل گئی ۔ بمجرد سنانے اس حکم کے پھانسی گھروں سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ بارکوں میں بند اور جیل خانے کے دستور کے مطبق مقراض سے ساری ڈاڑھی مونچھ اور سر کے بال تراش کر منڈی کی بھیڑسا بنادیا۔ (غدارواور ذلہ خوارو! اپنوں کے بےغیرتی دیکھ چکے اب ذراہماری مردانگی اور شجاعت دیکھو) اس وقت میں نے دیکھا کہ مولوی یحییٰ علی صاحب ( امیر المجاہدین) اپنی ڈاڑھی کے کترے ہوئے بالوں کواٹھا اٹھا کرکہتے ، افسوس نہ کر، توخدا کی راہ میں پکڑی گئی اوراس کے واسطے کتری گئی۔ “[1] امیر المجاہدین مولانا یحییٰ علی نے قید تنہائی اور سزائے دوام الحبس عبور دریائے شور کوجس استقامت اور خندہ پیشانی سے برداشت کیاوہ تاریخ حریت کاایک سنہرا باب ہے ۔ صاحب درمنشور لکھتے ہیں :