کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 411
سرکار! بات چلی تھی انگریز کی کاسہ لیسی کی ، اب بتلائیے کہ انگریز کے آلہ کار کون تھا، وہ راہ نوردان شوق کہ سر پر کفن باندھ کے تختہ دار کو چومنے کےلیے چلے ۔ یاوہ طبقہ سافلہ کہ جن کی آرزووؤں کا معراج پایہ یائے انگریزی کوبوسے دینا اور خسروان کفر کو سجدے کرنا تھا ؟ اور کیالغت میں ایسے لوگوں کے لیے ایجنٹ یا آلہ کار کے علاوہ بھی کوئی موزوں لفظ ہے ۔جب مرزائیت کے بعد یہ اب وجد ، کفر اور کافروں کے جوتوں میں جان دینا اپنا مقصود اور اپنا مطلوب قرا ر دےرہےتھے ، اہل حدیث ایسے لوگوں کی نماز جنازہ بھی پڑھنے کے روادار نہ تھے، جنہوں نے انگریز کی حمایت نہیں بلکہ انگریز کی مخالفت میں مداہنت کا ثبوت دیا ہو۔ چنانچہ مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ علیہ اپنی کتاب ”ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک“میں مولانا ولایت علی کے فرزند مولانا محمد حسین کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ : ” وہ انگریزوں کے اس قدر مخالف نہ تھے،جس قدر ان کے اسلاف اس لیے جب ان کا انتقال ہوگیا تو مشہور اہل حدیث عالم، مولانا عبدالحکیم صادق پوری رحمہ اللہ علیہ ( 1261ھ 1337 ھ ) خلف مولانا احمد اللہ رحمہ اللہ علیہ اسیر انڈیمان تواتنے سخت تھے کہ انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب مرحوم کی نمازجنازہ بھی نہیں پڑھی “ [1] اسیر دام بلا اور کون ہے میں ہوں شکار تیر جفا اور کون ہے میں ہوں شہید زہر حیا اور کون ہے میں ہوں قتیل تیغ ادااور کون ہے میں ہوں جب مرزاءی انگریز کے تلوے چاٹ رہے اور اس کی چوکھٹ پر ناصیہ فرسائی کررہےتھے اوراپنی اسلام، ملک اور قوم دشمنی کا صلہ مانگ رہے تھے ۔ اہل