کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 410
کی اور اس کے اخلاف کی زندگیوں کو بے نقاب کرنا شروع کیا تو مرزا محمود نے کہا : ”اپنے دینی اور روحانی پیشوا کی معمولی ہتک بھی کوءی پرداشت نہیں کرسکتا ۔اس قسم کی شرارتوں کا نتیجہ لڑاءی جھگڑا ، حتی کہ قتل وخونریزی بھی معمولی بات ہے۔ اگراس سلسلہ میں کسی کوپھانسی دی جائے اور وہ بزدلی دکھائے توہم اسے ہرگز منہ نہیں لگائیں گے ، بلکہ میں تواس کا جنازہ بھی نہیں پڑھوں گا“[1] اور : ” جب تک ہمارے جسم میں جان اور بدن میں توانائی ہے اور دنیا میں ایک احمدی بھی زندہ ہے ،اس نیت کو لے کر کھڑا ہونے والے کو پہلے ہماری لاشوں پر گزرنا ہووگا اور ہمارے خون میں تیرنا ہوگا “ [2] ذراغلام ہندی کےلیے اس غیرت کواور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے اس بے غیرتی کو ملاحظہ فرمائیے جب کہ اس ایسے لاکھوں غلاموں کوسرور ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں پر قربان کیاجاسکتاہے ۔ اور پھر انہی جوشیلی اور حمیت بھری تقریروں سے متاثر ہوکر 23 اپریل 1930ء کوایک مرزائی محمد علی نے مولوی عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مولوی عبدالکریم زخمی اور ان کا ایک ساتھی محمد حسین قتل ہوا اور جب 16 مئی 1931ء کواسےپھانسی دے دی گئی توخود مرزا محمود احمد نے اس کے جنازہ کو کندھا دیا اور مرزائیوں کے بہشتی مقبتہ میں دفن کیا؎ تمہاری زلف میں پہنچی توحسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی