کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 408
اس کے باوجود اورا س کے باوصف جب مسئلہ سرکار دولت مدار انگریزی کا ہوتا ہے تو وہی حرام اور ناجائز بن جاتاہے : ”صرف یہ التما س ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کرچکی ہے۔ خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم واحتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اوراخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کوایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظرسے دیکھیں ۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے “ [1] ان خط کشیدہ الفاظ کو دوبارہ پڑھیں اور سر دھنیں کہ اللہ کی راہ میں جان دینا اور خون بہانا حرام ، اس کے ناموس پر کٹنا ناجائز اور انگریز کی راہ میں خون دینا عین حلال اور اس کی آبرو مٹنا کار ثواب ! مولانا ظفر اللہ علی خاں نے کیاخوب کہا تھا ؎ کبھی حج ہوگیا ساقط کبھی قید جہاد اٹھی شریعت قادیاں کی ہے رضاجوئی نصاری کی او ر بڑے میاں سو بڑے میاں ( محمود ) سبحان اللہ ! ”عراق کی فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہائے اور میرے تحریک پر سینکڑوں آدمی بھرتی ہوکرچلےگئے “[2]