کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 393
حکومت کا شکریہ ادا کیا اور اس سے تعاون کے طریق کواختیار فرمایا تھا۔ا س سے کسی کا یہ نتیجہ نکالنا کہ ایسے لوگ انگریزوں کےا ٓلہ کار تھے۔انتہائی غلط فہمی ہے ۔ “ [1] اس سے قطع نظر کہ مرزائی ہنوز انگریز کے مدح سر اور ثناخواں ہیں اور اسی طرح اپنے نبوت ورسالت کے عطا کرنے والے کا حق نمک ادا کررہے ہیں ان سے سوال کروکہ وہ کون سا امن تھا جسے ہند میں انگریز ی حکومت نے قائم کیا۔ تیمور بابر کی بیٹیوں کی عصمت دری ورسوائی یا ہند کی مسلمان ماؤں کو ان کے جگر گوشوں سے محروم کرنا ؟ اس حریت کے دور میں ایک آزاد ملک کے اباسیوں کوان کی تعریف کرتے ہوئے شرم کرنی چاہیے جنہوں نے اس ملک کوڈیڑھ سوسال تک غلام بنائےرکھا اور اس ملک میں امن کوقائم نہیں کیا بلکہ امن کوتاراج کیا۔عفتوں پر ڈاکے ڈالے، آبروؤں کوغارت کیااور قوم کے جواں بیٹوں کا خون پیا۔ ان کے بوڑھوں کو تلوار کی دھاروں پرا ور معصوموں کو نیزوں کو انیوں پر رکھا لیکن وہ لوگ جن کی پرورش اور پرداخت ہی انگریزوں نے کی ہو اور جنہیں ان کی فرمانبرداری ورثہ اور مذہب میں ملی ہو وہ کب اس کو فراموش اور اس کی وفا کشی سے گریز کرسکتے ہیں ۔ شرم تم کو مگر آتی نہیں یاد رہے متنبی قادیان نے انگریز کی وفاداری کومرزائیت میں داخلہ کےلیے شرط اصل الاصول قراردیاتھا ۔چنانچہ وہ لکھتا ہے ” اب اس تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کیے ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ سرکار انگریزی کا