کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 392
مراحم کا ہمیشہ امیدوار اور عندالضرورت خدمتیں بجالاتارہا یہاں تک کہ سرکار انگریزی نے اپنی خوشنودی چٹھیات سے اس کو معززکیا اور ہر ایک وقت اپنے عطا ؤں کے ساتھ اس کو خاص فرمایا اور اس کی غم خواری اوراس کی رعایت رکھی اور اس کواپنے خیرخواہوں اور مخلصوں میں سے سمجھا۔ پھر جب میرا باپ وفات پاگیا تب ان خصلتوں میں اس کا قائم مقام میرا بھائی ہوا۔ ( ماشاء اللہ ہمہ خانہ آفتاب است) جس کا نام مرزاغلام قادر تھا اور سرکار انگریزی کی عنایات ایسی ہی اس کے شامل حال ہوگئیں جیسی کہ میرے باپ کی شامل حال تھیں ( اور تاریخ کامنہ چڑانے والو! کلیجہ تھام کے سنو) اور پھر میرا بھائی چند سال بعد اپنے والد کے فوت ہوگیا۔ پھر ان دونوں کی وفات کے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلا اور ان کی سیرتوں کی پیروی کی “ [1]
اہل حدیث پہ نگہ ناز کے تیربرسانے والو ! آؤ اور دیکھو کہ جب ہمارے آباء انگریز کےخلاف مورچہ لگارہے تھے ۔ تب تمہارے آباؤ کیاکررہےتھے اور سید احمد،اسماعیل شہید، سید نذیر حسین دہلوی ،عنایت علی ،ولایت علی ، علماء صادق پور، پٹنہ اور ان کے اخلاف توغدار، جنہوں نے راہ حق میں اپناسب کچھ لٹادیا،اور غلام مرتضے ،غلام قادر، غلام احمد اور ان کی معنوی اور روحانی اولاد حریت پسندا ور انگریز دشمن ! جن کا خمیر ہی اسلام دشمنی اور کفر دوستی سے اٹھایا گیاتھا؎
بس تفاوت راہ از کجا تا یکجا
مدیر”الفرقان لکھتا ہے
” انگریزی حکومت نے ملک ہند میں قیام امن اور آزادی مذہب کی جوکوششیں کی تھیں ان کی وجہ سے تمام دردمند مسلمانوں نے اس