کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 390
مصروف رہا اور جب” تمون“کی گزرپر مفسدوں ( محب وطن حریت پسندوں ) کاسرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا“[1]
جب سامراجی پٹھو انگریز کے آلہ کار او ر مرزائیت کے اجداد اس خیانت کا ارتکاب کررہےتھے۔ علماء یزدانی اور فقہاء ربانی انگریزی کےخلاف فتوی جہاد پر دستخط کررہےتھے ۔ چنانچہ وہ فتویٰ مع استفتاء درج ذیل ہے ۔
استفتاء
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ اب جو انگریز دلی پر چڑھ آئے ہیں اور اہل اسلام کی جان ومال کا ارادہ رکھتے ہیں اس صورت میں اب شہر والوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں ؟ اور وہ لوگ جواور شہروں اور بستیوں کے رہنے والے ہیں ان کو بھی جہاد کرنا چاہیے یا نہیں ۔ بیان کرو،اللہ تم کوجزادے"
جواب
درصورت مرقومہ فرض عین ہے اوپرتما م اس شہر کے لوگوں کےاور استطاعت ضرور ہے اس فرضیت کےو اسطے ۔
چنانچہ اس شہر والوں کو طاقت مقابلہ اور لڑائی کی ہے ،یہ سب کثرت اجتماع افواج اور مہیا اور موجود ہونے آلات حرب کے تو فرض عین ہونے میں کیا شک رہا، اور اطراف وحوالی کے لوگوں پر جو دورہیں