کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 389
وجان ہوا خواہ اور وفادار رہے اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معززافسران نے مان لیا کہ یہ خاندان کمال درجہ پرخیرخواہ سرکار انگریز ہے “[1] اور ” گورنمنٹ عالیہ انگریزی “ کے ” معززافسران “ نے یہ کیونکر مان لیاتھا کہ یہ”خاندان “ کمال درجہ پرخیرخواہ سرکار انگریزی “ہے ؟ اس لیے کہ جب مسلمان اپنی آبرو اور اپنے ناموس اور اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے اور اہل حدیث کے سرخیل شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی انگریزوں کےخلاف فتویٰ جہاد پر دستخط کررہے تھے ۔اس خاندان کا سربراہ گوروں کے بوٹ چاٹتے ہوئے اپنے ہی ملکی بھائیوں کی پشتوں می خنجر گھونپ رہاتھا“مرزاغلام احمد اس پر فخر کناں رقمطرزا ہے ۔ ”میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کاپکا خیر خواہ ہے۔ میراوالد مرزا غلام مرغے گورنمنٹ کی نظر میں وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا۔ جس کودربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کاذکر مسٹر گریفن صاحب کی ”تاریخ رئیسان پنجاب “ میں ملتی ہے،ا ور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کومدد دی تھی،یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم عین پہنچا کر عین زمانہ غدر(جنگ آزادی ) کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دیےتھے ۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں ، مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیاں جومدت سے چھپ چکی ہیں ۔ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں ۔ پھر میرے والدصاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزاغلام قادر خدمات سرکاری میں