کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 388
نے اس جذبے ہی کو ختم کرنے کی ٹھانی جس کے نتیجے میں یہ چنگاری پھر بھی کبھی بھڑک سکتی تھی ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی پر قلم اٹھانے والا کوئی مورخ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ وہ رک کر اہل حدیث کی عظمت ورفعت کوسلام نہ کرلے اور ان کے جذبہ جہاد اور ان کے بے پناہ قربانیوں کوخراج تحسین نہ پیش کرلے اور اسی طرح اس کی تاریخ تب تک مکمل ہیں ہوسکتی جب تک وہ ان خائنوں اور انگریز کےخاندانی نمک خواروں کا تذکرہ نہ کرلے جنہوں نے ان بدیشی کافروں کی خاطر اپنی ہرچیز کوداؤ پر لگادیا اور اپنی ہر متاع کوفروخت کردیاتھا چاہے وہ ضمیر ایسی گراں مایہ اور دین ایسی والا قدر شے ہی کیوں نہ ہو اور یہی سبب ہے کہ تاریخ کے اوراق ان دونوں کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں اور آج ہم اسی تاریخ کے اوراق ان دونوں کی تاریخ کواپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں اور آج ہم اسی تاریخ کے صفحات کو الٹ اور اسی کے اوراق کوپلٹ رہے ہیں کہ کچھ سفیہان امت باطلہ ، اور ابلہام کورچشم حقائق کو الٹانے،مٹانے اور چھپانےکےدرپے ہیں کہ شاعری میں توہمیں گواراہے کہ یاران شرپل خرد کا نام جنوں اور جنوں کانام خرد رکھ دیں اور ہم اسے آپ کے حسن کی کرشمہ سازی کہہ کر ٹال دیں لیکن تاریخ میں گوارانہیں ۔تاریخ کاورق آپ کے سامنے ہے کہ ”1947ء کو قادیان کے ایک انگریز دوست اور مسلم دشمن خاندان میں جنم لینے والا چشم وچراغ پنجاب کے انگریز گورنر کے حضور اپنی پشینی وفاداری کا ذکر ان الفاظ میں پیش کرتاہے ۔ ” سب سے پہلے میں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میں ایسے خاندان میں سے ہوں جس کی نسبت گورنمنٹ نے ایک مدت دراز سے قبول کیا ہوا ہے کہ وہ خاندان اول درجہ پر سرکار دولت مدار انگریزی کاخیر خواہ ہے ۔ میرے والدصاحب اور خاندان ابتداء سے سرکار انگریزی کے بدل