کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 387
گروہ میں تازہ بتازہ اسیران حرص وآواز کوبھی شامل کرتا رہے ، کیونکہ وہ اس طرح حقیقت سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ 1857ء میں بھڑکنے والا شعلہ ابھی پوری طرح بجھا نہیں بلکہ اس کے خاکستر میں ابھی کئی چنگاریا ں سلگ رہی ہیں جوکسی وقت بھی آتش فشاں بن کر اس خرمن عزوجاہ کوجلاسکتی اور خاک سابناسکتی ہیں ۔ا س لیے وہ بدستور اس جوڑ توڑ میں لگارہا کہ کوئی اییس تدبیر نکالی جائے جس سے برصغیر میں اپنے اقتدار کو مستحکم اورقیام کودوام بخشا جاسکے،اسے ہندوستان میں مجموعی طور پر جنگ آذادی کےبعد اگر کسی سے خطرہ تھا تومسلمانوں سے تھا، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ایک تومسلمانوں کو اپنی قیادت وسیاست کے مٹنے کاغم ہے کہ ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں ہی کی حکومت تھی اور دوسری طرف ان کا دین ۔ا ن کی شریعت اور ان کے جذبات جہاد انہیں ہمیشہ غیرملکی کافروں کےغلبہ واستیلاء کے خلاف انگیخت کرتے اور برہم زن اکساتے رہیں گے اور پر بالفعل برصغیر کےموحد مسلمانوں کاایک گروہ اس کےخلاف برسر عمل اور برسر پیکار ہوبھی چکاتھا اور انگریزاس مٹھی بھر ” گروہ عشاق“ سے اس قدر ہراساں ،لرزاں اور ترساں تھا کہ اسے ہندوستان کی سرزمین اپنے پیروں کے نیچے سے کھسکتی ہوئی معلوم ہونے لگی ۔ موحدین خنجروں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر رقص کررہےتھے اور سامراج کو برصغیر میں اپنا سورج ڈوبتا ہو انظر آرہاتھا اس کے غدار اور ذلہ خوار اٹھے اور ان میں سے چند نے تواس جماعت مقدسہ پر ”وہابیت “ کالیبل چسپاں کرکے اس کی تحریک حریت کودوسروں مسلمانوں تک پہنچنے سے بازرکھنے کی کوشش کی اور چند