کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 381
منشی جی ! ہم کسی کو گالی دینے کے عادی نہیں اور گالی دینا گناہ سمجھتے ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ گالی دینے والے کا احترام بھی ہمارے نزدیک گناہ سے کم نہیں ۔ مرزا غلام احمد کے لیے اسی لیے ہمارے قلم سے احترام کوئی لفظ نہیں نکلتا کہ اس” مرد شریف“سے کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں رہی ۔ ایک عام آدمی سے لے کر علماء فقہاء ائمہ محدثین اور صحابہ کرام ( علیہم الرضوان) اور انبیاء عظام ( علیہم السلام ) تک اس کی دریدہ دہنی سے نہیں بچ سکے۔ اس لیے ہم مرزا غلام احمد کی مزعومہ نبوت اور امامت تودرکنار اس کی شرافت تک کے قائل نہیں ہوسکے کیونکہ خود اس کے اپنے الفاظ میں : ” یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر ا خلاق رذیلہ میں گرفتار ہوا ور درشت بات کاذرا بھی متحمل نہ ہوسکے ۔ا ور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچھ طبیعت کاآدمی ہوکہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتاہے ۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں، وہ کسی طرح بھی امام زمان نہیں ہوسکتا“۔[1] اسی معیار پر جب ہم مرزا کو پرکھتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ نہ صرف تمام اخلاق رذیلہ اس میں پائے جاتے ہیں بلکہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتاہے او رآنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں ۔ ذرادیکھیے توسہی کہ اپنی کتاب نور الحق میں صفحہ نمبر 118 سے لے کر صفحہ 122 تک پورے چار صفحات ایک ہی حرف سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ ہے اپنےمخالفین پر لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت،اور لعنت“ [2] استغفراللّٰہ ! اللہ کے بندے ، اتنی اتنی بھی کیا جھاگ کہ پورے صفحوں کا ستیاناس کردیا ۔