کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 380
میلان طبع کو نہ روکا گیا توغالباً امن عامہ میں نقص پید اہوگا “[1]
او ر اس سے بیشتر 23 اگست 1897ء کوڈپٹی کمشنر مسٹرڈ گلسن اور 1899ء میں مجسٹریٹ ڈوئی اس سے اقرار نامہ لے چکےتھے کہ وہ آئندہ کسی کےخلاف گندی زبان استعمال نہیں کرے گا ۔ چنانچہ مسٹرڈ گلسن نے اپنے فیصلہ میں لکھا
” مرزاغلام احمد کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ جو تحریرات عدالت میں پیش کی گئی ہیں ،ا ن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ( مرزا) فتنہ انگیز ہے ۔[2]
اورا س کا اعتراف خود مرزا کوبھی ہے کہ وہ کہتا ہے :
ہم نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے سامنے یہ عہد کرلیا ہے کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے کام نہ لیں گے“ [3]
لیکن باوجود ان عدالتی تنبیہات اور قول واقرار کے مرزا غلام احمد مجبوراً یہ کہتے ہوئے دوبارہ اسی ” شیرینی گفتار“ پر اترآتا کہ ؎
چھٹتی نہیں یہ کافر منہ سے لگی ہوئی
نہ جانے مدیر ”پیغام صلح “ کوکیاسوجھی کہ اس نے شیش محل میں بیٹھے بٹھائے اپنے امام کی ” عظمت “ کاانکار کرکے ہم پتھر پھینکنے شروع کردیے ۔ شاید انہیں اس بات نے دلیر کردیا ہو کہ مدیر ” ترجمان الحدیث “ ملکی سیاسیات کے بکھیڑوں میں الجھنے کے باعث ادھر توجہ نہ دے سکے گا اور اسی وجہ سے وہ ایام گزشتہ میں ہم پر مشق ناز فرماتے رہے بقول غالب ؔ
گومیں رہا رہین ستم ہائے روشگار
لیکن ترے خیال سےغافل نہیں رہا !