کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 379
نیز:
” بعض کتابوں کی طرح، بعض بھیڑیوں کی طرح ، بعض سوروں کی طرح اور بعض سانپوں کی طرح ڈنگ مارتے ہیں “ [1]
اور ملاحظہ کیجیے حسن بیان اور حسن ادا:
”کنجر ولد الزنا جھوٹ بولتے ہوءے شرماتے ہیں “مگر اس آریہ میں اس قدر شرم بھی باقی نہیں رہی“ [2]
اور گالی مرزا کی طبیعت کا اس قدر جزو اور حصہ بن گئی ہے ، کہ وہ اس کے بارے میں بغیر بات نہیں کرسکتا۔ حتی کہ بارہ گاہ صمدانی میں بھی اپنی دریدہ دہنی سے باز نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں کے مسلمہ عقیدے کہ " اب وحی رسالت ہمیشہ کےلیے منقطع ہوگئی ہے“ پر طعن توڑتے ہوئے کہتا ہے
کوئی عقل منداس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ ا س زمانہ میں خدا سنتا ہے مگر بولتا نہیں ۔ پھر اس کے بعد سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا ۔ کیازبان پر کوئی مرض لاحق ہوگئی ۔([3] (عیاذ باللہ)
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر
کیاتجھ کومزا بھی مرے آزار میں آوے
اور یہی دشنام دہی کی عادت تھی جس نے 18 اکتوبر 1904ء میں گورداس پور کی عدالت کواس بات کے کہنے پر مجبور کردیا کہ
” ملزم نمبر 1 ( مرزاغلام احمد قادیانی ) اس امر میں مشہور ہے کہ وہ سخت اشتعال دہ تحریرات اپنے مخالفوں کے برخلاف لکھا کرتا ہے،اگر اس کے