کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 363
قلم کررہاہوں کہ جولوف اب بھی مرزامحمود احمد صاحب خلیفہ ربوہ کے تقدس کے قائل ہیں ان کے لیے راہنمائی کا باعث ہو۔ اگر میں مندرجہ ذیل بیان میں جھوٹا ہوں توخدا تعالیٰ کا عذاب مجھ پر اور میرے اہل وعیال پر نازل ہو۔
میں پیدائشی احمدی ہوں اور 57ء تک میں مرزا محمود احمد صاحب کی خلافت سے وابستہ رہا۔ خلیفہ صاحب نے مجھے ایک خود ساختہ فتنہ کے سلسلہ میں جماعت ربوہ سے خارج کردیا ۔ ربوہ کے ماحول سے باہر آکر خلیفہ صاحب کے کردار کے متعلق بہت ہی گھناؤنے حالات سننے میں آئے ،اس پر میں نے خلیفہ صاحب کی صاحبزادی امۃ الرشید بیگم ، بیگم میاں عبدالرحیم احمد سے ملاقات کی۔ انہوں نے خلیفہ صاحب کے بدچلن اور بدقماش اور بدکردار ہونے کی تصڈیق کی ۔ باتیں توبہت ہوئیں لیکن خاص بات قابل ذکر تھی کہ جب میں نے امۃ الرشید بیگم سے کہا کہ آپ کے خاوند کا ان حالات کا علم ہے توانہوں نے کہاکہ صلح نور صاحب آپ کو کیا بتلاؤں کہ ہمارا باپ ہمارے ساتھ کیاکچھ کرتا رہا اور اگر وہ تمام واقعات میں اپنے خاوند کو بتلادوں تووہ مجھے ایک منٹ کے لیے بھی اپنے گھر بسانے کےتیار نہ ہوگا توپھر میں کہاں جاؤں گی ،۔ا س واقعہ پرامۃ الرشید کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور یہ لرزہ خیز بات سن کر میں بھی ضبط نہ کرسکا اوروہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلاگیا۔ا س وقت میں ان واقعات کی بناء پر جومیں ڈاکٹر نذیر احمد ریاض ، محمد یوسف ناز،راجہ بشیر احمد رازی سے سن چکاہوں ،حق الیقین کی بناء پر خلیفہ صاحب کو ایک بدکردار اور بدچلن انسان سمجھتاہوں اور اسی کی بناء پر وہ آج خدا کے عذاب میں گرفتار