کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 347
یہ اجازت نہیں دیتی تھیں کہ ان پر ایسا بڑا الزام لگایاجاسکے ۔ا یک دن کا ذکر کہ میرے والد صاحب نے جوہر کام کےلیے حضور سے اجازت حاصل کرتے ہیں او ر بڑے مخلص احمدی ہیں۔ ایک رقعہ حضرت صاحب کوپہنچانے کےلیے دیا ،جس میں اپنے ایک کام کےلیے اجازت مانگی تھی۔ خیر میں رقعہ لے کر گئی اس وقت میاں صاحب نئے مکان میں مقیم تھے ۔ میں نے اپنے ہمراہ ایک لڑکی لی جووہاں تک میرے ساتھ ہی گئی اور ساتھ ہی واپس آگئی ۔چند دن بعد مجھے پھر ایک رقعہ لے کر جانا پڑا۔ا سوقت بھی وہی لڑکی میرے ہمراہ تھی۔ جوں ہی ہم دونوں میاں صاحب کی نشست میں پہنچیں تواس لڑکی کوکسی نے پیچھے سے آواز دی میں اکیلی رہ گئی ۔ میں نے رقعہ پیش کیا اور جواب کے لیے عرض کیا، مگر انہوں نے فرمایاکہ تم کو جواب دے دوں گا گھبراؤ مت ۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کررہے ہیں، ان سے مل آؤں ۔ مجھے یہ کہہ کر باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگاکت اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ بند کردیا۔ا ور چٹکیاں لگادیں ۔ جس کمرے میں میں تھی وہ اندر سے چوتھاکمرہ تھا، میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح کےخیالات دل میں آنے لگے ۔ آخر میاں صاحب نےمجھے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برا فعل کرنے کوکہا، میں نے انکار کردیا،آخر زبردستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت بباد کی اور ان کے منہ سے اس قدر بدبوآرہی تھی کہ مجھ کوچکر آگیا اور وہ گفتگو بھی ایسی کرتےتھے کہ بازاری آدمی بھی ایسی نہیں کرتے ،ممکن ہے جسے لوگ شراب کہتے ہیں انہوں نے پی ہو،کیونکہ ان کے ہوش وحواس بھی