کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 344
الحدیث“ کے بارہ میں ایک الزام تراشا گیاتھا۔ ”الفرقان“ نے اس کے نیچے لکھا ہے :
”ہم ان اقتباسات کو بھی تاریخ میں محفوظ کرنے کےلیے شائع کررہے ہیں“
قارئین صرف اسی سے اندازہ لگالیں کہ امت مرزا اپنے متنبی کی کی پیروی میں دیانت وامانت سے کس حد تک عادی ہوچکی ہے، کیونکہ اس روزنامہ نے دوسرے دن ہی اس خبر کے جھوٹ اور بے بنیاد ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی تردید شائع کردی تھی لیکن مرزائیوں کے اس "پوپ" کی بددیانتی او افتراپروازی کو دیکھے کہ اس نے خبر نقل کرتے ہوئے اس کی تردید کے بارہ میں کچھ کہنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی حالانکہ اگرا سے تاریخ میں محفوظ کرنے کا اتنا ہی شوق تھا توہم اسے غلام احمد، اس کی امت،اس کے بیٹوں ،پوتوں اور ان کی بیویوں کے بارہ میں ایسی ایسی خبریں فراہم کردیتے ہیں جن کی تردید کی جرات آج تک کسی مرزائی کونہیں ہوسکی،چند خبریں فراہم کردیتے ہیں جن کی تردید کی جرات آج تک کسی مرزائی کونہیں ہوسکی، چندخبریں توآج کی صحبت میں محفوظ کرلیں اور مزے کی بات کہ ایک بھی بیگابے سے نہیں ۔
مرزاغلام احمد کا اپنا بیٹا اور مرزائیت کایکے از ضاوید مرزا بشیر احمد اپنے باپ کے سوانح میں لکھتاہے :
بیان کیامجھ سے میری والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے توپیچھے پیچھے مرزاامام الدین بھی چلے گئے ۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی توآپ پھسلا کر اوردھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ جب آپ نے سارا روپیہ اڑاکر ختم کردیاتو آپ کوچھوڑ کر کہیں اور چلاگیا۔ حضرت مسیح موعود ( مرزاغلام ) اس شرم سےو اپس گھر نہیں آئے اور چونکہ