کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 342
اور جب مدیر” الفرقان“ نے پیش کش کی کہ وہ میرے لیے ربوہ اسٹیشن سے جہاں کہ مسلمانوں کی دوکانیں ہیں کچھ کھانے پینے کومنگوالیتے تو میں نے شکریہ سے ٹال دیا تھا۔ اس جھوٹ پر یہی کہتاہوں ؎
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم سرور کون ومکان گئی
”الفرقان"نے“ اخبار اہل حدیث کے مدیر کے نام ” کےبعد ایک عنوان “ مساجد کےلیے خدائی غیرت“کے ماتحت راقم الحروف کےخلاف یاوہ گوئی اور اپنے خبث باطنی کاطومار باندھا۔
وہ ہم پر قاتلانہ حملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :
” مرزائیت کےخلاف لکھنے کی پاداش میں مرزاغلام احمد کاالہام کیسے پورا ہوکہ انی مھین من اراد اھانتک کہ جس نے تجھے ذلیل کیا اسے میں ذلیل کروں گا“
اگر مدیر ” الفرقان“ کامقصد یہ ہے کہ اس حملہ کا سبب مرزائیت کےخلاف ہمارا قلمی اور لسانی جہاد ہے توحکومت کواس طرف توجہ کرنے چاہیے ۔
اور اگر اس کامطلب ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے سزا تھی توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے برعکس یہ قدرت کی طرف سے ایک انعام تھا کہ اس نے ہماری ان حقیر خدمات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ( جوہم کفر،ہرقسم کے کفر،جن میں سرفہرست مرزائیت ہے،کےخلاف سرانجام دے رہی ہیں ) اپنے فضل وکرم سے ہمیں محفوظ رکھا توبات زیادہ درست ہوگی ۔
اگر مدیر ”الفرقان“ کی مراد لاہور کے ایک کمیونسٹ ہفت روزہ کی وہ ہر زہ سرائی ہے جس کا ہر مومن مسلمان اور محب وطن پاکستانی نشانہ بناہوا ہے تو شاید شاعرانہ طور پر یہ کہاجاسکے کہ معاملہ بالکل برعکس ہے اور مرزاغلام کا الہام اپنے