کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 341
اور الہیات میں تہران یونیورسٹی سےایم۔اے اور بون یونیورسٹی جرمنی سے پی ۔ا یچ ڈی تھا اور مزے دار بات کہ ا س سے میری بحث مدیر ” الفرقان“سے گفتگو سے بھی تین سال بیشتر ہوئی تھی جب کہ ابھی میری میں بھی نہیں بھیگی تھیں اور میں فارسی کا ایک معمولی طالب علم تھا، جب کہ اللہ دتہ جالندھری ایسے برخود ان پڑھ سے گفتگو کے وقت میں نہ صرف یہ کہ علوم عربیہ کی تکمیل کرچکاتھا۔بلکہ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور عالم عرب کے نامور ادیب اورخطیب سراہ چکےتھے ( ایک ایسی بات جسے شاید ”الفرقان“ بھی نہ کہہ سکا) رہا علمیت کا اعتراف اور وہ بھی دل ہی دل میں ، یہ بات بھی خوب رہی ، مجھے معلوم نہ تھا کہ راون کے دیس میں سارے ہی باون گزرے ہیں۔ مرزاغلام احمد نے وحی والہام کادروازہ کیا کھولاکہ غالب کے الفاظ میں :
ہر بو الہوس نےحسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی !
ایک اور بات ،اسی مرزائی لڑکے نے لکھا کہ :
”اس وقت توہم احسان صاحب کے گھر کے افراد، یعنی مسلمان تھے اور اب ہم فتوے دیتے ہیں“
حالانکہ مرزائیوں کے کفر کے بارہ میں اس وقت بھی میرے ایقان اور ایمان کاعالم یہ تھا کہ ربوہ میں رہنے کے بوجود پانی کی ایک بوند اور کھانے کاایک لقمہ تک منہ میں نہ ڈالا تھا کہ کفات کے برتنوں میں کھانا درست نہیں ۔کیامرزائی لڑکے اور خود مدیر ”الفرقان“ اس کے برخلاف پرحلف اٹھانے کو تیار ہیں کہ میں تمام دن ربوہ میں بھوکا رہا تھا، اور ان دنوں ربوہ میں کوکا وغیرہ مشروبات میسر نہ تھے ،