کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 337
دیتے ہیں کہ جس موضوع پر جہاں چاہیں ہم سے تقریری یا تحریری گفتگو کرلیں تا کہ لوگوں کو آپ کی کذب بیانی کے ساتھ آپ کے مذہب اورمتنبی کے جھوٹ کابھی علم ہوجائے ۔ رہ گئی بات ” لاہور“تواس چیتھڑے نے سوائے ہرزہ سرائی اور بیہودہ گوئی کے کبھی دلیل وسند سے بات ہی نہیں کی۔ اگر گالی کا جواب گالی میں ہی سننا اس کا شوق ہے تواسے سن لینا چاہیے کہ ہم امت مرزائیہ کودائرہ اسلام سے خارج اور اور سرور کائنات علیہ السلام کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کذاب اور دجال سمجھتے ہیں ۔اور ان کی عبادت گاہیں ہمارے نزدیک مسجد ضرار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں کہ جب بھی اس دیس میں صحیح اسلامی حکومت قائم ہوئی انہیں مسمار کردیاجائےگا اورا س نے آنے والوں کواسلام میں واپس لوٹنا پڑے گا یا اسلامی دیس میں ایک الگ قلیت بن کر رہنا پڑے گا جن کے معابد کواور تو سب کچھ کہاجاسکے گا،ساجد نہیں کہ یہ نام صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں سے مختص ہے ۔“ اس اداریے کے بعد ہمیں مرزائیوں کی جانب سے دھمکی آمیز اور دشنام سے لبریز خطوط کےعلاوہ کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ ہم نے ان گالیوں اور دھمکیوں کا نوٹس لینا اس لیے گوارا نہ کیاکہ ایک آبروباختہ امت سے جن کا راہنما اور مقتداء گالی کے سوا بات ہی نہیں کرسکتا تھا،اس وشنام طرازی کے علاوہ اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے،اس کےبعد اپنی تعلیمی تبلیغی اور دیگر مصروفیات کے باعث میں تقریباً مسلسل تین مای تک دفتر سے غیرحاضر اور منقطع سا رہا۔ ہفتہ وار ”اہل حدیث“ اور ماہنامہ ” ترجمان الحدیث “میں میرے رفقاء تبادلۃً آنے والے پرچوں کے قابل توجہ مضامین پر نشان لگاکر مجھے بھجوادیتے اور میں ان کے بارہ میں انہیں اپنا مشورہ دے دیتا ، اور میرے وہ احباب جومیرے طرز تحریر کوجانتے