کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 334
”االاعتصام“ کے وہ گیارہ اداریے بھول گئے ہیں جن کا جواب نہ پاتے ہوئے اس نے اپنے آقا کی بارگاہ میں دہائی دینا شروع کردی تھی، یا مدیر” المنبر“ کے بارہ میں ہماری شہادت پر مدیر ” الفرقان کے نام“ ہمارا وہ تازیانہ اسے یاد نہیں رہا جس کی ٹیس وہ مدتوں تک محسوس کرتا رہا؟ اور ا س نے یہ بھی فراموش کردیا ہے کہ ہم نے اس کے دفتر ربوہ میں بیٹھ کر اسرائیل اور مرزائیت کے تعلق اور روابط پر اس سے گفتگو کی اور مرزائیت اور اسرائیل دونوں کومسلمانوں کےخلاف انگریز کی تخلیق ا ور سازش ثابت کیا تواس نے اڑی ہوئیرنگت اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ناظلم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث ،سے جواس سفر میں راقم الحروف کے ساتھ تھے ،کہا تھاکہ ” احسان صاحب دودھاری تلوارہیں“ اورا س سے بھی پہلے 1964ء میں جب مدینہ یونیورسٹی سے رخصت پر گھر آیاتھا اور آپ نے سیالکوٹ کے چند مرزائی لڑکوں کے ذریعہ مجھے ربوہ آنے کی دعوت دی تھی اور جناب جلال الدین شمس کے مکتبہ میں بیٹھ کر صداقت مرزا کے موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے میں نے مرزاغلام احمد کی پیش گوئیوں کو پیش کیاتھا توآپ نے اپنے سامنے ایک نوخیز طالب علم وکدیکھتے ہوئے بڑے وثوق اور اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیاتھا کہ مرزا غلام احمد کی کوئی پیش گوئی ایسی نہیں جوپوری نہ ہوئی ہو اور محمدی بیگم کی پیش گوئی کےمتعلق ایسی توجیہ پیش کی تھی ، جسے سن کر حاضرین اور خود جلال الدین شمس بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے تھے تو آپ نے اپنی پیشانی سے پشیمانی کے قطرے پونچھتے ہوئے کہا تھا کہ ”پیش گوئی کا نبی کی زندگی میں پورا ہونا ضروری نہیں جس طرح کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ