کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 330
مسلمان فرقوں کے دینی اور صاحب املاک اداروں پر اپنے پہرے بٹھاسکتا ہے تو مرزائی صاحب جائیداد اداروں پر کیوں پہرے نہیں بٹھائے جاتے کہ جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ اور جنہوں نے چناب کے کنارے آباد بستی میں علاقہ حکومتی طرز پر سیکرٹریٹ تک بنا رکھاہے اور جس بستی میں مرزائی آقاؤں کی مرضی کے بغیر کوئی شخص کوٹھڑی تک کی تعمیر نہیں کرسکتا اور جہاں کے باسی بڑے فخر ومباہات سے کہتے ہیں کہ ہماری بستی میں بعض سرکاری دفاتر موجود توہیں لیکن ان دفاتر کے سروپیر ہماری امت کے وہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے ان سرکاری دفاتر کی حیثیت عملاً مرزائی اداروں کی ہو کر رہ گئی ہے اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ آئے دن مرزائی اخبارات میں اس نوعیت کے اشتہارات آتے رہتے ہیں کہ ملک کے فلاں شعبہ میں اس قدر اسامیاں خالی ہیں اور فلاں میں اس قدر اسامیاں خالی ہیں اور فلاں اس قدر،اس لیے فوری طور پر اپنی درخواستیں ربوہ میں فلاں کے نام ارسال کردی جائیں ۔ اس قسم کے اشتہارات کو پڑھ کر ایک عام آدمی فوری طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ربوہ کودرخواستیں لینے کے اختیارات کس نے تفویض کرکھے ہیں ؟
حکومت نے یا ان مرزائی آفیسروں نے جومختلف شعبوں کے سربراہ ہیں اور پھر آیا ان آفیسروں کویا ان کے گماشتوں کوقانون پاکستان کی روسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملازمت کی درخواستیں ایک مخصوص غیر مسلم مذہب کے توسط سے طلب کرے، وگرنہ نہ کیا یہ امور حکومت میں مداخلت تونہیں ؟ پاکستان میں بسنے والی مسلمان اکثریت کہ ( جس نےا ور) جس کے لیے اس ملک کوحاصل کیاگیاتھا،ا س بات پر بھی بے چینی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتی کہ انگریزوں کی پروردہ ، وظیفہ خوار اورجاسوس جماعت کوجومسلمانوں کوتحریک آزادی ( کہ جس کے نتیجہ میں پاکستان ظہور میں آیا ) میں شمولیت سے بازرکھتی اور انگریزوں کی ذلہ خواری پر آمادہ کرتی رہی ، اس طرح کی بے جامراعات سے نوازا جائے جو نہ صرف یہ کہ