کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 327
چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے، لنگر کا خرچ رو تھوڑا ساہوتا ہے،باقی ہزاروں روپیہ جوآتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھروں میں آکرآپ نے بہت غصہ ظاہر کیا کہ یہ لوگ ہم کوحرام خور سمجھتے ہیں ،ا ن کو روپیہ سے کیاتعلق “ [1] اور آخر میں کیا مدیر ” الفرقان“ربوہ ایک بہت بڑے مرزائی کی شہادت کوبھی اپنے موقر پرچے میں شائع کرنے کی زحمت گواہ فرمائیں گے،کہ مرزاغلام احمد سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی تاریک راتوں میں غیر محرم عورتوں سے اپنی ٹانگیں دبوایا کرتے تھے ؟ اور اگرضرورت محسوس کریں تو اس کا نام ا ور پتہ بھی بتایاجاسکتاہے اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ ہم بار ہاحکومت کو” الاعتصام“کے ان کالموں میں اس بات سے آگاہ کرچکےہیں کہ : ” انگریز نے مرزائیت کوبرصغیر پاکو ہند میں وجود ہی اس لیے بخشاتھاکہ یہ اسلامیاں برصغیر کے اندر انتشار وافتراق کے بیج بوئیں اور آج تک اپنے قادیان ولی نعمت کی تربیت اور ہدایت کے مطابق اس فریضہ شر کو انجام دے رہے ہیں او اگر ا س پر ان کی گرفت کی جائے توواویلا اور چیخ وپکار شروع کرکے حکومت سے مدد ومدافعت کی التجائیں اور فریادیں شروع کردیتے ہیں اور اندرون پردہ حکومت کے