کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 326
باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دیاکرتے تھے،ا سی طرح ہم کوبھی کرنا چاہیے غرض ایسے وعظ کرکے کچھ روپیہ بچایا کرتے تھے اور پھر قادیان بھیجتے تھے،لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں ،وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ کر گئیں کہ تم جھوٹے ہو، ہم نے توقادیان میں جاکر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے،جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کوحاصل ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی باہرنہیں، حالانکہ ہمارا روپیہ اپناکمایا ہوا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی روپیہ ہوتاہے ۔ [1] اور لدھیانہ کا ایک مرزائی نوحہ کناں ہے : ”جماعت مقروض ہوکر اور اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے مگر یہاں بیوی صاحبہ ( غلام احمد کی بیوی ) کے زہورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتاہی کیاہے “ ،[2] اور جناب محمد علی مفسر مرزائیت کی اپنے ” مسیح موعود “کے بارے میں گواہی کیاہے وہ بھی قابل اشاعت ہے : حضرت صاحب ( مرزاغلام احمد) نے اپنی وفات سے پہلے،جس دن وفات ہوئی ،اسی دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہاکہ خواجہ ( کمال الدین) صاحب اور مولوی محمد علی صاحب مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھاجاتا ہوں ،ان کوایسا نہ کرنا چاہیے تھا ( واحسرتا) ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا ( کس کا ؟ اپنا؟ واقعی اچھا نہ ہوا)