کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 314
کی توجیہ وتاویل میں اس طرح اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کیاکہ :
”ا س فقرہ میں بھی نبی کا نام پانے کا ہی ذکر ہے منصب نبوت پر فائز نہیں ہونے کا نہیں “ [1]
پتہ نہیں " پیغام صلح " اس عبارت سے کون سی گتھی کوسلجھانا چاہتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے نبی کانام پایا ہے اور منصب نبوت پر فائز نہیں ہوا۔ نبی نام بھی رکھاگیا اور پوری امت میں سے اس کےلیے مخصوص بھی کیاگیا، لیکن نبوت نہیں ملی ؟ اس تضاد بیانی کے کیاکہنے ! خداوند عالم نے خوب فرمایا ہے :
” لوکان من عند خیر اللّٰه لوجدوا فیہ اختلافا کثیر ا“
اصل میں لاہوری مرزائی خواہ مخواہ تکلف برتتے ہیں کہ مرزاغلام احمد نبی نہیں تھے اور ان کا ماننا ضروری اور فرض نہیں ۔ا ور اس مقصد کے حصول کےلیے دورازکار تاویلیں تلاش کرتے ہیں ، حالانکہ معاملہ بالکل واضح اور صاف ہے اور خود یہ بھی اندر سے اس بات کو مانتے ہیں ، لیکن صرف اس بات کی وجہ سے کہ ان کے سربراہ اور موسس ( مولوی محمد علی) کومرزاغلام بشیر الدین محمود وغیرہ نے بددیانتی اور خیانت کے الزام میں قادیان سے نکال دیاتھا۔ا س کے انتقام میں انہوں نے مرزا بشیر الدین کے باپ مرزاغلام احمد کی نبوت کا قولاً انکار دیا یعنی بیٹے کاانتقام باپ سے لیا۔ حالانکہ یہ خود اس حقیقت کے معترف تھے اور ہیں کہ مرزا مدعی نبوت تھےا ور مرزائیوں کاسواواعظم انہیں نبی مانتا اور جانتا اور کہتا ہے یعنی گروہ ثانی جس کی قیادت پہلے قادیان اور اب ربوہ کرتا ہے ۔ مرزا غلام احمد کو دل اور زبان دونوں سے نبی جانتا ہے اور کہتا ہے اور گروہ اول جس کے قائد پہلے مولوی محمد علی اور اب صدر الدین صاحب ہیں ۔ مرزا کو دل سے نبی جانتے ہیں لیکن زبان سے انکار کرتے ہیں، گویا گروہ اول اس بارہ میں نفاق کا