کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 306
اور وہی ہوا، کہ اس کے صرف ایک سال اور ایک ماہ بعد مرزاقادیانی ذلت وحسرت کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ ایسے دشمنوں کی زندگی میں اس بری مرض میں مبتلا رہ کر مرگئے جسے ہیضہ کہتے ہیں اور ا س رسوائی کا نقشہ بھی خود اس کے بیٹے نے کھینچا ہے جواسے مرض موت میں لاحق ہوئی ، وہ اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتاہے : ”پہلے ایک پاخانہ آیا اور اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھاکہ آپ پاخانے نہ جاسکتےتھے ،اس لیے چارپائی کے پاس ہی بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی، مگر ضعف بہت ہوگیا تھا،اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کوایک اور قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تواتنا ضعیف تھا کہ آپ پشت کے بل چارپائی پر گرگئے ،ا ور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی “[1] اور پھر اسی پیغام صلح میں شائع ہوا کہ : ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی موت کے وقت ان کے منہ سے پاخانہ نکل رہاتھا“ [2] اب بتلائیے کہ رسوائی اور ذلت کی موت کون مرا؟ مرزائی نورالدین بھیروی ، مرزا غلام احمد قادیانی یاحضرت مولانا محمد حسین بٹالوی علیہ رحمۃ ؟ اس لیے ہم نے کہا تھا کہ جولوگ مرزا غلام قادیانی کے مخالفین پر اس قسم کے گھٹیا ، بے بنیاد اور جھوٹے الزام تراش کر اپنے حواریوں کوخوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ مرزاغلام احمدا ور اس کے ساتھیوں کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ذلتوں اور رسوائیوں کوان لوگوں کے سامنے بے نقاب