کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 303
یہ خبر شائع کی تھی جوپس منظر کا پورا پتہ دیتی ہے کہ : ” فروری کا مہینہ وہ مہینہ ہے جب حضرت مولانا نورالدین صاحب بستر علالت پرتھے اور آپ کی حالت دن بدن تسویشناک تھی“ [1] اور پھر انہی مرزائیوں کی جانب مرزا بشیر الدین پر کیاکیا الزام لگائے گئے،کہ اس نے نورالدین کی اولاد کا خاتمہ کیا،ا س کی بیٹی اور اپنی بیوی امۃ الحی کوقتل کروادیا۔ نورالدین کے بیٹے عبدالحی کوزہر دلواکر مروادیا ،ا ور پھر یہ تو کل کیہ بات ہے، اسی نوارالدین جس نے مرزائیت کی خاطر اپنا سب کچھ ،دین ،ایمان، مذہب، ضمیر اور روپیہ ہر چیز لٹادیاتھا،جس نے بقول ”پیغام صلح “ اپنے ”نور بصیرت “سے مرزاقادیانی کےدعویٰ مسیحیت کومان لیاتھا،ا س کے دوسرے بیٹے عبدالمنان سے خلیفہ قادیان نے جوکچھ کیاتھا،وہ کسی پوشیدہ نہ ہوگا ۔ کہ اسے منافق قراردیا،ا س کا سوشل بائیکاٹ کروایا اور ربوہ میں اس کا داخلہ ممنوع قرار پایا اور اسے اس جماعت تک سے باہر پھینک دیا جس کی خاطر اس کے باپ نے ہزار ذلت ورسوائی مول لی تھی اور اس طرح نورالدین کی عبرت انگیز اور ذلت آمیز موت پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ اس کی رسوائی میں ا س کی موت کے بعد اور اضافے کیے گئے اس کا نام ونشان تک مٹادیا گیا۔ ان سب باتوں کے ہوےت ہوئے پھر کسی دوسرے حملہ آور ہونا اپنے گھر سے بے خبری کی دلیل نہیں تو اور کیاہے ؟ اور شاید ”پیغام صلح“ کے مضمونن نویس کونورالدین کے مقدر ہوئی نہ کہ مولانا بٹالوی کے اور پھر موت کے بعد تباہیاں اور نامرادیاں نورالدین کونصیب ہوئیں کہ مرزائیوں کے بقول ” بچے بھی انہوں نے مروائے