کتاب: مرزائیت اور اسلام - صفحہ 302
اور اپنی زندگی میں وہ رسوا اور نامراد رہا“ یہ عبارت اپنے اندر جس قدر گھٹیا پن اور پستی لیے ہوئے ہے،اس سے قطع نظر ہم اس وقت صرف یہ ثابت کریں گے کہ ذلت ورسوائی کی موت کون مرا؟ نورالدین جس نے مرزا کے دعویٰ مسیحیت وکوقبول کرلیا، یاکہ مرزا جس نے مسیحیت کادعویٰ کیا؟ اسی اخبار” پیغام صلح“ کے نامہ نگار نے ایک اشتہاری شائع کیا ،جس کا نام رکھا” گنجینہ صداقت“ اور اس اشتہار کونقل کیا،مشہور مرزائی پرچے ”الفضل “ نے ۔اس میں نورالدین کی ذلت ورسوائی کی موت کو اس کے ” نوربصیرت“کے باوصف ان الفاظ میں ذکر کیاگیاہے : ” کہاں مولوی نورالدین صاحب کا حضرت مسیح موعود ( مرزاقادیانی) کونبی اللہ اور رسول اللہ اور اسمہ احمد کا مصادق یقین کرنا اور کہاں وہ حالت کہ وصیت کے وقت مسیح وعود کی رسالت کااشارہ تک نہ کرنا۔ استقامت میں فرق آنا پھر بطور سزا کے گھوڑ ے سے کر کر بری طرض زخمی ہونااور آئندہ جہاد میں بھی کچھ سزا اٹھانا اوراس کے بعد اس کے فرزند عبدالحی کاعفوان شباب میں مرنا اور اس کی بیوی کا تباہ کن طریق پر کسی اور جگہ نکاح کرلینا، یہ باتیں کچھ کم عبرت انگیز نہیں“ [1] کیا کہتا” پیغام صلح“ کاموجودہ مضمون نویس کہ یہ سچا ہے یا” پیغام صلح “ کا وہ روزنامہ نگار جس نے ” گنجینہ“ صداقت شائع کیا تھا اور جس کی عبارت کو ” الفضل “ نے نقل کیا ہے ؟ اور اسی ” پیغام صلح “ نے مورخہ 23 مئی 1917ء کو